Dosti Or Eeman Part 2
- Armeen Aabroo
- Feb 19, 2021
- 11 min read
Dosti Or Eeman by Armeen Aabroo Part 2. This novel is based upon a girl who has to choose her path by acting upon her friends’ advice. Either right path or wrong. In this novel evils of our society have been highlighted. And how the girl is going to find her path by facing different and difficult problems.
About Writer
Armeen Aabroo is an emerging new writer and it’s her new novel that is being written for our platform. She has written many famous novels for her readers .These novels will surely grab your attention. Readers like to read her novels because of her unique writing style.
دوستی اور ایمان
حصہ دوم
سورج ڈھل گیا اور دوپہر کی جگہ شام نے لے لی. مزید کچھ وقت گزرا اور چاند کی چاندنی نے رات
کے اندھیرے کو روشن کرنا شروع کر دیا. ضحی افتخار صاحب کے انتظار میں لان میں کھلنے والی کھڑکی میں کھڑی تھی. کافی دیر انتظار کرنے کے باوجود وہ نہ آۓ تب وہ اپنی سوچوں کی دنیا میں جانے ہی والی تھی کہ گاڑی کے ہارن کی آواز اس کی سماعت سے ٹکرائی. یکا یک آگے ہو کے نیچے جھانکا. جب تسلی ہو گئی کہ ہاں بابا ہی آۓ ہیں تو دوڑی دوڑی نیچے گئی. دروازے پر بیل بجی تو آج خود جا کے دروازہ کھولا. "اسلام علیکم بابا!" بے پناہ پیار سے افتخار صاحب کو سلام کیا اور ان کے ہاتھ سے بیگ لیا. "وعلیکم اسلام! واہ بھئی کیا بات ہے آج تو ہماری بیٹی خود آئی ہیں دروازے پے." افتخار صاحب نے حیرت اور اور خوشی کے ملے جلے لہجے میں کہا. "جی بابا، بس ویسے ہی." ضحی ہلکا سا مسکرائی. "ہم، ماشاءاللہ آج کافی دنوں بعد آپ اتنی خوش باش لگ رہیں ہیں. ورنہ اتنے دنوں سے میری شہزادی مرجھایا ہوا پھول لگ رہی تھی." کہ کر ضحی کے ماتھے پر پڑے بال ہاتھ سے پیچھے کئے اور اس کے ماتھے پے بوسہ دیا. پھر ساتھ ساتھ چلتے دونوں ٹی-وی لاؤنج تک آئے. بوا اور رافعہ بھی کچن سے بھر آئین اور افتخار صاحب کو سلام کیا. "بابا مجھے اپ سے کچھ بات کرنی ہے." نظریں نیچے کئے دائیں ہاتھ کی انگلی سے بائیں ہاتھ کی ہتھیلی کو مسلتے ہوئے ضحی نے اپنے والد سے کہا. "اچھا جی تو یہ وجہ تھی لاڈ کرنے کی. ہم؟!" "نہیں بابا وو تو بس ویسے ہی." "ہاہاہا! اچھا ٹھیک ہے بیٹا. جو بات کرنی ہے آپ کر لیجیے گا مگر ابھی نہیں ڈائننگ ٹیبل پے." "اچھا بابا! آپ چینج کر لیں میں بوا اور امی کی مدد کرواتی ہوں کھانا لگانے میں." کہ کر وو وہاں سے چلی گئی. افتخار صاحب اس کو تب تک دیکھتے رہے جب تک وہ نظروں سے اوجھل ہو کر کچن میں نہ چلی گئی. "ایسے کیا بات ہے جس کے بڑے میں ضحی تو اتنا سوچنا پر رہا ہے. ویسے تو کوئی بھی بات ہوتی ہے بڑے مزے سے کہ دیتی ہے. کہیں اس کو وو بات پتا تو نہیں چل گئی." افتخار صاحب کی پیشانی پر یکا یک کافی ساری شکنیں رونما ہو گئیں.
********************
"ماما!" ضحی نے رافعہ کو مخاطب کیا جو ٹیبل کی دوسری طرف اس کے سامنے بیٹھیں تھیں. "جی بیٹا...کہو کیا ہوا؟" کہ کر بنایا ہوا نوالہ اپنے منہ میں رکھا. "آپ نے کیا سوچا پھر؟ چلیں گیں نا میرے ساتھ؟" "جی بیٹا مجھے تو کوئی اعتراض نہیں. مگر اپ اپنے بابا سے تو پوچ لیں پہلے." "کس بارے میں بات ہو رہی ہے بھئی؟؟" افتخار صاحب نے لفظ بابا سن کر پوچھا اور اپنی کرسی سمبھالی. " بابا یہ....وہ وہی بات ہے جو مجھے آپ سے کرنی تھی. "ہم.. اچھا جی! تو بتائیے پھر کیا بات ہے....کس چیز کی اجازت لینی ہے؟" "بابا وہ... میں لاہور جانا چاہتی ہوں." ضحی نے بولنا شرو کیا. "لاہور جانا ہے؟؟؟" انہوں نے جیسے اپنی بات کی تصدیق چاہی. "جی بابا!" "تو مسلہ کیا ہے؟ آپکو جانا ہے. آپ جائیں. میں ٹکٹس کروا دوں گا. مگر بیٹا دھیان سے جانا ہے...." انہوں نے ذرا سختی سے کہا. اس کی حفاظت کے معاملے میں وہ کوئی رسک نہیں لے سکتے تھے. "نہیں بابا یہ کوئی کالج ٹرپ یا دوستوں کا پلان نہیں ہے." ضحی نے وضاحت دینا چاہی. "تو پھر؟؟؟" افتخار صاحب نے ضحی کو سوالیہ نظروں سے دیکھا. "بابا... اصل میں میں ماما اور صونیہ کے ساتھ لاہور جانا چاہتی ہوں." ضحی نے چمچہ ایک طرف رکھا اور دل ہی دل میں افتخار صاحب کو پوری بات بتانے کا فیصلہ کیا. "خیریت؟" "بابا میں صونیہ سے داؤد بھائی (ماموں کا بیٹا) کی شادی میں ملی تھی. وہ بہت بدل گئی ہے. وہ پردہ کرنے لگی ہے. یقین آیا؟ نہیں نا..." خود ہی سوال کر کے خود ہی جواب دیا گیا. "ہم...بدل تو کافی گئے ہیں وہ لوگ. میں نوید بھائی اور بھابھی سے ملا تھا. جب ہی اندازہ ہو گیا تھا. مگر بیٹا اس میں یقین نہ کرنے والی تو کوئی بات نہیں. میں خود چاہتا ہوں کہ ہمارا گھرانہ بھی ان لوگوں جیسا ہو جاۓ." افتخار صاحب کی یہ بات سنی ہی تھی کہ ضحی کا منہ کھل گیا. "بابا... آپ؟ واقعی ایسا چاہتے ہیں؟" "جی برتا میں ایسا ہی چاہتا ہوں. Their whole family was looking so graceful. Don’t you think so?” ضحی کے منہ کے ساتھ آنکھیں بھی کھل گئیں. مگر زبان نے دماغ کا نہیں بلکہ دل کا ساتھ دیا. “Exactly!” یکایک اس کے منہ سے نکلا. "ہاں لگ تو کافی اچھے رہے تھے وہ لوگ." رافعہ نے بھی اپنے شوہر کی بات سے اتفاق کیا. "تو بابا بس اسی لئے میں بھی چاہتی ہوں کہ میں ڈاکٹر عبدرحمان سے ملوں." "ڈاکٹر عبدرحمان؟ یہ کون ہیں؟" اپنے والد کے سوال کے جواب میں اس نے وہ سب کچھ بتا دیا جو صونیہ نے اس کو بتایا تھا. ساتھ ہی وہ بھی جو وہ چاہتی تھی." "یہ تو بہت اچھی خواہش ہے بیٹا. آپ اتنا گھبرا کیوں رہیں تھیں یہ بات کرتے ہوۓ؟" والد کے اس سوال اپر نظریں نیچے کیں اور صرف اتنا کہا. "مجھے لگا تھا کہ اپ میری اس بات سے اتفاق نہیں کریں گے." "ہم، صحیح کہا بیٹا آپ نے مگر، حالت اور وقت انسان کو کبھی یکساں نہیں چھوڑتے. انسان کی زندگی میں کبھی نہیں کبھی کوئی ایسا واقعہ آ ہی جاتا ہے یا اس کی نظروں سے گزر ہی جاتا ہے جو اس کو بدلنے پر مجبور کر دیتا ہے." افتخار صاحب کو اپنی آواز کسی کھائی سے آتی محسوس ہوئی. ان کی آواز میں دکھ اور افسوس جھلک رہا تھا. اور رافعہ اس چیز کو محسوس کر دیں. مگر ضحی... اس کی تو ویسے ہی پرانی عادت تھی کہ اپنی خوشی کے آگے اس کو کسی کا غم، دکھ یا تکلیف محسوس ہی نہیں ہوتی تھی. اور آج بھی ایسا ہی ہوا. مگر وہ نہیں جانتی تھی کہ اس کی یہ خوشی بہت مختصر وقت کی ہے. اس پر بہت جلد ایک قیامت ٹوٹنے والی ہے.
********************
اگلے دن صبح جب وہ ناشتہ کر کے واپس اپنے کمرے میں آنے کے لئے سیڑھیاں چڑھ رہی تھی کہ پیچھے سے بوا کی آواز سماعت سے ٹکرائی. "ضحی بیٹی! آپ کا موبائل بج رہا ہے ذرا دیکھ تو لیں." "آہ! اچھا لا کر دے دیں." اس کے لہجے میں بے پناہ بیزاری تھی. "یہ لیں بیٹا." بوا نے ڈائننگ ٹیبل پر پڑے موبائل کو اٹھایا اور سیدھا لا کر ضحی تو تھاما دیا. سکرین پر "صونیہ فرینڈ" جگمگا رہا تھا. ریسیو کے بٹن پر کلک کیا اور موبائل کو کان سے لگایا تو صونیہ کی آواز کان میں پڑی. "اسلام علیکم! بہن کہاں گیب ہو؟" اس کی آواز میں شکوہ جھلک رہا تھا. "وعلیکم اسلام! کہیں نہیں یار. مجھے کہاں غیب ہونا ہے." سیڑھیاں چڑھتی ضحی اپنے کمرے تک آئی. ناب گھمایا اور دروازے کو اندر کی طرف دھکیلا. “Guess what?!” صونیہ کی آواز یکا یک پر جوش ہو گئی. “What?” مجھے اجازت مل گئی." "اوہ.. اچھا.. “good news! اس نے سرسری س جواب دیا. "تم خوش نہیں ہوئیں؟" "ہاں .....ہوں خوش میں." اس نے سپاٹ لہجے میں کہا. "لگ تو نہیں رہا. کیا ہوا ہے بھئی، بتاؤ نا" صونیہ کو جیسے ضحی کی فکر ہوئی. "یار، میں....میں خود نہیں سمجھ پا رہی. عجیب کنفیوژن ہے." ضحی نے صونیہ کو اصل وجہ بتانا چاہی. "کونفسے کیوں ہو؟ مجھے لگا تم نے یہ فیصلہ کافی سوچ سمجھ کر لیا ہے." صونیہ کو تشویش ہوئی. "پتا نہیں یار. لگتا ہے مرے دل کے دو حصّے ہو گئے ہیں. ایک دل کہتا ہے صونیہ جیسی ہو جاؤ. تو دوسرا کہتا ہے کہ یہ ایک بیکار سوچ ہے. تم جیسی ہو بہت اچھی ہو. اور تو سنو سونے پے سہاگہ یہ کہ میں یہ بات کسی اور دوست سے کر بھی نہیں سکتی. کشمالہ یا عالیہ سے کی تو وہ پہلی فرصت میں میری جان نکل دے گئیں. صرف تم ہی ہو جو میری فیلنگس کو سمجھ سکتی ہو. اب بتاؤ کیا کروں؟؟" ضحی نے سارا حال دل صونیہ کو سنا ڈالا اور اب جوڑے سے نکلتی لٹ کو انگلی پر گول گول لپیٹنا شروع کر دیا. وو واقعی کافی پریشان تھی. "ہم....اچھا! میں چاہتی ہوں...بلکہ تمہیں as a friend ایک adviceدوں؟" "ہاں!" "تم اس معاملے پر اچھی طرح سوچو کیونکہ یہ ایک یا دو دن کا فیصلہ نہیں ہے یار." صونیہ کے اس مشورے نے اسکے دل کو چھو لیا. وہ تو جیسے ایسے ہی کسی مشورے کے انتظار میں تھی. "اچھا ٹھیک ہے.. میں تو خود یہی چاہتی ہوں کے کوئی ایسا فیصلہ کروں کہ بعد میں پچھتانا نہ پڑے." ضحی کے دل کو کچھ ڈھارس ہوئی. "اچھا ویسے تم نے انکل اور آنٹی سے بات کی تھی؟" صونیہ نے ضحی کی جانب ایک اور سوال اچھالا. "ہاں، ماما بابا تو ایک دم ہی مان گئے تھے. عجیب بات ہے نا؟" اس نے صونیہ سے اپنی بات کی تصدیق چاہی. "اب.....مجھے تو نہیں لگتا کہ اس میں کچھ عجیب ہے.....الله جس کو چاہے جب ہدایت دے دے. اور اب الله کوئی فیصلہ کرتا ہے نا تو بندہ کچھ نہیں کر پاتا. ساری دنیا بھی مل کے اگر الله کے کسی کے خلاف جانے کی کوشش نا تب بھی ہو گا تو وہی جو الله چاہے گا. کیونکہ الله ہی ہمارا مالک اور......" "خالق ہے!" اک دم ضحی کے منہ سے نکلا. یہی وہ الفاظ تھے جو کئی دنوں سے ایسے اپنے اندر گونجتے ہوۓ محسوس ہو رہے تھے. بلا آخر اس کی زبان پر آ ہی گئے. ضحی کے ادا کئے گئے الفاظ سن کر صونیہ زیر لب مسکرائی. "اچھا میں بعد میں بات کرتی ہوں. خدا حافظ!" رافعہ کی افز ضحی کو سنی دی تو اس نے گفتگو کو اتختتام پذیر کرنا چاہا اور فون کاٹ دیا. کوئی پرسرار سی تسکین تھی جو اس کو اپنے اندر اترتی ہوئی محسوس ہوئی.
********************
ایک اور دن گزر گیا اور رات پھر سے رونما ہو گئ۔ چاند اپنی پوری آبوتاب سے چمک رہا تھا۔ ہاتھ میں کافی کا مگ لیۓ رافعہ بیڈروم میں داخل ہوئیں۔ سامنے بیڈ پر افتخار صاحب بیٹھے تھے۔ ہاتھ میں ایک فائل پکڑے اس کے کاغذات پلٹ کے پڑھ رہے تھے۔ چہرے پے چھاءی اداسی کو رافعہ باھنپ گئں۔ "یہ لیں۔" رافعہ ان کے برابر میں آکر کھڑی ہو گئں اور مگ ان کی جانب بڑھایا۔ "ہم۔۔۔شکریہ۔" کہہ کر مگ تھاما اور اسے سائڈ ٹیبل پر رکھ دیا۔ رافعہ بھی ان کے پاس بیڈ پر آکر بیٹھ گئں۔"آج ہسپتال گئے تھے؟" رافعہ کی طرف سے بات کا آغاز ہوا۔ "ہاں گیا تھا۔۔۔۔مگر کوئی اچھی خبر نہیں ملی۔" افتخار صاحب نے ایک گہرا سانس لیا۔ ان کی آواز سے دکھ، درد اور تکلیف صاف واضح تھی۔ "کیا کہا ڈاکٹر نے؟" رافعہ بس رو دینے کو تھیں۔ آنسو ان کی آنکھوں میں جھلملانے لگے۔ "اس کی بیماری آخری اسٹیج پے ہے۔ ڈاکٹروں کے مطابق ہم کچھ نہیں کر سکتے۔ بس جو کرے گا ﷲ ہی کرے گا۔ ہم تو صرف دعا ہی کر سکتے ہیں کہ ﷲ اس کو اچھی اور لمبی زندگی دے۔ آمین۔" "آمین!" رافعہ نے زیر لب کہا۔ "ٹپ ٹپ ٹپ رافعہ کی آنکھوں سے آنسوں زاروقطار بہنے لگے۔ "یا خدا!! یہ کیوں ہوا۔۔۔یہ سب۔۔۔۔ ہمارے ساتھ۔۔۔۔" وہ اپنا جملہ مکمل نہ کر سکیں۔ "آنسوؤں کی وجہ سے حلق میں ایک گولہ سا اٹک گیا تھا۔ افتخار صاحب مرد ہونے کے ناطے بمشکل اپنے آنسوؤں پر قابو رکھے ہوۓ تھے۔ ورنہ درد تو انکا بھی اتنا ہی بڑا تھا جتنا رافعہ کا۔ "لیکن ہماری بیٹی ہی کیوں؟؟" رافعہ نے جیسے اپنے شوہر سے شکوہ کیا۔ "رافعہ ایسی باتیں نہیں کرتے۔۔۔۔۔یہ گناہ ہے۔۔۔۔ہم ﷲ سے شکوہ نہیں کر سکتے۔ ہماری ضحی کے نصیب میں یہ مضحر بیماری لکھی تھی تو اسکو ہونی ہی تھی۔ ہم یا کوئی اور کچھ نہیں کرسکتا۔" اب کی بار ان کی آواز بھی لڑکھڑا گئ۔ "افتخار صاحب ہم کب تک ضحی سے یہ بات چھپائیں گے؟؟" رافعہ اب بھی پھوٹ پھوٹ کر رو رہیں تھیں۔ "جب تک ﷲ چاہے۔ میرے پاس اس بات کا اور کوئی جواب نہیں ہے۔" ایک دو تین بلا آخر افتخار صاحب کا صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا اور ان کی آنکھیں بھی نم ہو گئیں۔ ساری رات وہ دونوں ایک دوسرے کو اسی طرح تسلیاں دیتے رہے۔ کبھی ضحی کے بچپن کے دن یاد کرتے تو کبھی اس کی کھانسی کی آواز ہتھوڑا بن کر ان کے دماغوں پر برستی۔
********************
مزید کچھ دن اسی طرح گزر گئے. ضحی اپنی سوچوں کی دنیا سے اک لمحے کے لئے بھی بھر نہ اسکی. آخر کار اس کا دل و دماغ اس فیصلے پر متفق ہو گیا کہ اسکو اپنے والد سے بات کرنی کہیے. وہ جاننا چاہتی تھی کہ ایسی کیا بات ہے جو اسکے والد نے ایسی بات کی. دماغ میں پھر سے وہی جملہ آ گیا. اور افتخار صاحب کا چہرہ اور اس پر چھائی اداسی اس کی آنکھوں کے سامنے آ گئے.
********************
اتوار کا دن تھا اور افتخار صاحب اتوار کے دن اپنی فیملی کے ساتھ بیٹھنے کو ترجیح دیتے تھے نہ کہ باہر کسی اور فنکشن یا دوستوں میں جاتے. ہر اتوار کی طرح آج بھی رافعہ اور افتخار صاحب ٹی-وی لاؤنج میں بیٹھے ٹی-وی دیکھ رہے تھے اور کچھ باتیں بھی جاری تھیں کہ ضحی سیڑھیاں پھلانگتی نیچے آئی. صبح سے سوچا ہوا تھا کہ موقعہ ملتے ہی اپنے والد سے بات کرے گی. "ماما!.." ضحی کی ماما کی آواز سے زیادہ رافعہ اور افتخار صاحب اس کی کھانسی کی آواز پر متوجہ ہوئے. " ضحی بیٹا! آرام سے آؤ میری جان." رافعہ برق رفتاری سے اٹھ کے ضحی کے پاس آئیں. ساتھ ہی افتخار صاحب بھی ہاتھ میں پکڑے ریموٹ کو ٹیبل پے پھینک کے ضحی کی جانب آئے. "کیا ماما... کھانسی ہی تو ہے. آپ اور بابا بلاوجہ اتنا پریشان کیوں ہوتے ہیں؟" رافعہ ایک ہاتھ ضحی کی پیٹھ پے پھیر رہیں تھیں اور دوسرے ہاتھ سے اس کا دایاں ہاتھ تھام رکھا تھا. ان کے چہرے پر ہوائیاں اڑنے لگیں جب انہوں نے فرش پر کسی لال رنگ کی شے کو دیکھا. "آہاں....ہاں بیٹا پر تم خیال رکھا کرو نا. دیکھو کتنا خشک موسم ہے آج کل. کھانسی تو ہو گی ہی نا جب سیڑھیاں پھلانگتی ہوئی آؤ گی." بولتے بولتے روکیں اور برابر میں کھڑے افتخار صاحب کو دیکھا جو اسی لال رنگ کی شے کو گھور رہے تھے اور دل ہی دل میں اس بات کو غلط ثابت کرنا چاہتے تھے کہ یہ خون ہیں اور یہ خون ضحی کے منہ سے ہی نکلا ہے. "ااا...اچھا..اچھا ضحی بیٹا تم کمرے میں جاؤ." رافعہ نے ضحی کے سامنے خود کو نارمل کرنے کی کوشش کی. مگر ناکام رہیں. ضحی دل ہی دل میں تشویش کا شکار ہوئی کہ آخر ایسی کیا بات ہے جو ماما، بابا اتنا......" اسکی سوچ کا دائرہ تب ٹوٹا جب اپنے والد کو خود سے کچھ کہتے سنا. " ضحی، آپکی ماما صحیح کہ رہیں ہیں. آپ ابھی کمرے میں جائیں." انہوں نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا. "مگر بابا...مجھے.." کہ کر اس نے اپنی نظریں جھکا لیں. افتخار صاحب نے اسکی ٹھوڑی کو انگلی کے پورے سے چھو کر اسکے چہرے کو اوپر کیا. "بابا کی بیٹی ہے نا تو بابا کی بات مانے گی." وہ آج بھی اسے ایسے ہی مناتے تھے جیسے اس کے بچپن میں. "اچھا ٹھیک ہے.." کہ کر واپس جانے کے لئے پلٹ گئی. اور اس بار آہستہ آہستہ چلتی سیڑھیاں عبور کر کے اپنے کمرے میں چلی گئی. رافعہ اور افتخار صاحب اس کو تب تک تکتے رہے جب تک وہ نظروں سے اجھل نہ ہو گئی. "افتخار صاحب.. مجھ میں بلکل اتنی ہمّت نہیں کہ کو سچائی بتا سکوں. رافعہ کی آنکھوں میں آنسو تیرنا شروع ہو گئے. وہ جتنا ضبط کرتیں کم تھا. آخر کو ماں تھیں اس کی. "رافعہ...ہمّت رکھو...."وہ بس اتنا ہی کہ سکے. قوت برداشت سے ان کی مٹھیاں بھینچ گئیں. رافعہ تو عورت تھیں، رو ساختیں تھیں. مگر افتخار صاحب بار بار اپنی بیوی کو تسلیاں دیتے رہے. "ایک بات بتاؤں آپکو؟" رافعہ نے آنسوؤں کے بیچ افتخار صاحب سے سوال کیا. "ہم..بتاؤ." "١٦ سال کی میری ضحی مجھے بلکل ٦ سال کی لگی لگی. ابھی جب اس نے مجھ سے پوچھا کہ ماما صرف آنسو ہی تو ہیں، آپ اور بابا اتنا پریشان کیوں ہوتے ہیں؟" کتنی معصومیت تھی نہ اس کے لہجے میں.... کیسے بتایے گی اس کی ماں اس کو کہ اس کھانسی کی وجہ کیا ہے؟؟" جس لمحے وہ آنسو پوچنٹین اسی لمحے آنسو دوبارہ انکھوں سے جاری ہو جاتے. افتخار صاحب نے رافعہ کا ہاتھ تھاما. ایسے جیسے انھیں تسلی دے رہے ہوں. اور پھر گویا ہوئے. "الله کے ہر کام میں بہتری ہوتی ہے. اتنا تو مجھے اس ذات پر بھروسہ ہے." کچھ لمحے خاموشی کے نام ہوئے. ایک لمبی سانس انہوں نے اپنے اندر اتری اور کہا. "میں چاہتا ہوں کہ ضحی جو کہے گی وہ کی ہو گا. اگر وہ بدلنا چاہتی ہے تو ضرور بدلے گی.ہمیشہ سے اسکی خواہشات کو پورا کرتا آیا ہوں. اپنی کوئی خواہش، کوئی چاہت اس کے آگے نہیں رکھی.
جاری ہے ....

Amazing as always. Can't wait to read the next.