Dosti Or Eeman 4th and last part
- Armeen Aabroo
- Feb 22, 2021
- 42 min read
Dosti Or Eeman by Armeen Aabroo Part 1. This novel is based upon a girl who has to choose her path by acting upon her friends’ advice. Either right path or wrong. In this novel evils of our society have been highlighted. And how the girl is going to find her path by facing different and difficult problems.
About Writer
Armeen Aabroo is an emerging new writer and it’s her new novel that is being written for our platform. She has written many famous novels for her readers .These novels will surely grab your attention. Readers like to read her novels because of her unique writing style.
دوستی اور ایمان
چوتھا اور آخری حصہ
"کیوں کیا ہوا! پہچان لیا مجھے یا تھوڑا سا اور یاد دلاؤں!؟" عالیہ ایک بار پھر چیخی تھی. "عا... عالیہ تم مجھے اس نمبر سے کیسے کال کر رہی ہو؟ یہ تو..." اسکا جملہ مکمل نہ ہوسکا. عالیہ دوبارہ بول پڑی. "ارے یار.. ایک تو تم بھولی بہت ہو! یاد ہے وہ تھپڑ جو تم نے مجھے مارا تھا، اپنی اس لاڈلی کی حمایت میں... یاد تو ہو گا. یہ ویڈیو اسی تھپڑ کا بدلہ ہے." کہہ کر وہ خوب زور سے ہنسی. "کیا!!!.. تت.. تم مجھ.. میرے ساتھ ایسا کیسے کر سکتی ہو؟ عالیہ میں تمہاری دوست ہوں. کشمالہ..!" اسکی آواز لڑکھڑا گئی. ایک ساتھ کئی آنسو اسکی آنکھوں میں امنڈ آۓ. اسکے ذہن میں وہ منظر گھوم گیا جس لمحے کا ذکر ابھی عالیہ نے اس سے کیا تھا. "ہاں جی.. تو یاد آگیا آپکو. میڈم کشمالہ! and now please be ready for your punishment!" اسنے بے حد سختی سے کہا. "عالیہ... تم سے ایسی امید نہیں تھی مجھے. I hate you!" اسنے روتے ہوئے کہا. اب وہ صرف بول ہی سکتی تھی. کرنے کا کام عالیہ کا تھا جو کہ وہ بخوبی کر رہی تھی. "ہاہاہا! just shut up!... " اسنے کہا اور فون کاٹ دیا.کشمالہ کے بار بار فون کرنے پر بھی کسی نی کال رسیو نہیں کی. کیوں کہ وہ نمبر اب بند کر دیا گیا تھا. "یا الله! میں کیا کروں.... پلیز الله مجھے بچا لے!" اسنے ایک بار پھر اپنے رب کو یاد کیا. اسکا چہرہ آنسؤں سے مکمل طور پر بھیگ چکا تھا. "اب تو میں کچھ بھی نہیں کر سکتی... اگر وہ ویڈیو اپلوڈ ہو گئی تو..." اس سے آگے وہ سوچ نہیں سکی. اس بات کا تصور ہی اسکو ہلا کر رکھ دینے کے لیے کافی تھا.
**********
رات کی تاریکی مکمل طور پر ہر چیز کو اپنی لپیٹ میں لے چکی تھی. ہر طرف خاموشی کر رراج تھا. ٹرن! ٹرن! ٹرن! دانیال کا فون بجا. پانچ سے سات بیلوں پر اسکی آنکھ کھلی تو اسنے بغیر نمبر دیکھے کال رسیو کی. "دانیال شرم کرو! ذرا سی بھی غیرت اگر تم میں باقی ہے تو اپنی بہن کو ابھی دھکے دے کر گھر سے نکل دو! اتنی بےغیرتی! استغفراللہ!" کال کرتے ہی مقابل کی غصّے سے بھری آواز سنائی دی. دانیال نے کان سے موبائل کو ہٹایا اور نمبر دیکھنا چاہا. "کون ہے جو رات کے ایک بجے مجھے غیرت پر درس دے رہا ہے." اسنے سوچا. "عظیم؟" نام پڑھ کر اسنے زیر لب کہا. وہ اسکا پھوپھی زاد بھائی تھا. "عظیم... کیا بولے جا رہے ہو؟ پاگل ہو گئے ہو کیا؟ کیوں نکالوں اپنی بہن کو اپنے گھر سے؟ عزت ہے میری!" اسکی حیرت کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا. "تمہاری بہن نے اپنی یونیورسٹی میں ایسا واحیات ٹیبلو کیا ہے. میڈم انار کلی بنی ہوئی ہیں!" دوسری جانب موجود شخص نے طنزیہ لہجے میں کہا. "واٹ؟! انار کلی؟ کون سا ٹیبلو بھائی؟" وہ بےچینی میں اپنے بستر سے اٹھ گیا. "واہ جی واہ! بہن پوری دنیا میں اپنے ہنر دکھاتی پھر رہی ہے اور بھائی ہر چیز سے لاعلم ہیں. رکو بھیجتا ہوں وہ ویڈیو جو سوشل میڈیا پر ٹرینڈنگ میں آگئی ہے." عظیم نے دانیال کو کشمالہ کی ویڈیو بھیجی. ویڈیو دیکھ کر اسنے موبائل کو سائیڈ میں پھینکا اور اپنے کمرے سے باہر نکل آیا. اسکی آنکھوں میں خون اتر آیا تھا. "کشمالہ! دروازہ کھولو!" اسنے کشمالہ کے کمرے کے دروازے کو پوری قوت سے پیٹنا شروع کر دیا. کشمالہ جو ابھی کوئی آدھ گھنٹہ پہلے ہی بری مشکل سے سوئی تھی، کی آنکھ کھل گئی. "کشمالہ جلدی باہر آؤ!" دانیال ایک بار پھر چیخا. "کیا ہوا بھائی جان؟" اسنے دانیال کو آج سے پہلے کبھی اتنے غصّے میں نہیں دیکھا تھا. وہ بےانتہا ڈر گئی. شور کی آواز سن کر رابعہ بھی اپنے کمرے سے نکل آئیں. "دانیال بیٹا؟ کیا ہو گیا؟" انہوں سے کہا. "امی آپکو خدا کا واسطہ ہے.. آج آپ بچ میں مت آیۓ گا!" دانیال نے انکے آگے ہاتھ جوڑ کر کہا. "پر بیٹا ہوا کیا ہے؟" ابھی انہوں نے اس سے سوال کیا ہی تھا کہ اسنے ایک زور دار تھپڑ کشمالہ کے دائیں گال پر رسید کر دیا. تھپڑ اتنی زور کا تھا کہہ کشمالہ ایک دم لڑکھڑا گئی اور زمین پر جا گری. "بھائی جان...." آنسو اسکی آنکھوں سے ایک بار پھر رواں ہو گئے. "دانیال!" وہ زمین پر پڑی کشمالہ کو ایک اور تھپڑ لگانے کی غرض سے آگے بڑھا مگر رابعہ بیچ میں آگائیں. "کیا کر رہے ہو؟! بہن ہے تمہاری! کیا ہو گیا ہے؟ آج سے پہلے کبھی تم نے اس پر ہاتھ نہیں اٹھایا! تو اب کیا ہو گیا ہے!؟" رابعہ کشمالہ کے پاس جا بیٹھیں. "امی آپکی یہ بیٹی..." اسنے ماں کو تمام بات بتا دی. "الله!" رابعہ کی منہ سے ایک دم نکلا. "مجھے نہیں معلوم تھا کہ اس پردے کے پیچھے تم یہ گل کہلاتی رہی ہو." کہہ کر وہ بےپناہ غصّہ اپنے اندر سمیٹے اسکی جانب لپکا اور چٹیا سے پکڑ کر اسکو گھر کے دروازے سے دے مارا. وہ باقاعدہ ہچکیوں سے رو رہی تھی. "بھائی جان آپ میری بات تو سنیں!" اسنے کچھ کہنا چاہا مگر وہ اسکی بات کاٹ گیا. "بس... بہت ہو گیا. اب اور نہیں. جتنا تم نے ہماری عزت کر کچرا کرنا تھا کر لیا. نکلو! دفع ہو جاؤ ہمارے گھر سے!" دانیال کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ اسکا وہیں پر قتل کر دے. "پر بھائی جان... میری بات تو سن لیں ایک بار پلیز!" اسنے روتے ہوئے التجا کی. "دانیال بیٹا بہن ہے تمہاری!" انہوں نے کہا. رابعہ کی آنکھیں بھی نم ہو گئیں تھیں. "ایسی بہن سے بہتر ہے...." اسنے اپنا جملہ ادھورہ چھوڑ کر کشمالہ کی جانب دیکھا. "وہ عزت جو بےعزتی کی وجہ بن جائے اسکو گھر سے نکل ہی دینا چاہیے." کہہ کر وہ کشمالہ کی جانب بڑھا اور اسکا ہاتھ پکڑ لیا. دوسرے ہاتھ سے مین گیٹ کی کنڈی کو کھولا اور کشمالہ کو گھسیٹتے ہوئے گھر کی دہلیز سے باہر کر دیا. "دانیال! بیٹا پلیز!" رابعہ تڑپ کر بولیں. "امی بس!" اسنے ماں کو دیکھ کر کہا اور پھر واپس کشمالہ کی جانب مڑا. "تم ہمارے لیے اور ہم تمہارے لیے مر گئے. اب دوبارہ کبھی اپنی شکل ہمیں مت دکھانا!!!" اسنے کہا اور دروازہ بند کر دیا. کشمالہ کو لگا وہ اب کبھی بھی سانس نہیں لے پائے گی. وہ رابعہ کی رونے کی آواز سن سکتی تھی. وہ دانیال سے التجا کر رہیں تھیں کہ کشمالہ کو معاف کر دو. مگر وہ تو جیسے قسم اٹھا چکا تھا کہ اب کشمالہ کو در بدر کرنا ہی ہے. دانیال کے سر پر خون سوار تھا. وہ شاید ان تمام یادوں کو بھلا چکا تھا جو کشمالہ سے جڑیں تھیں. اپنے کمرے میں جا کر اسنے دوازے کو ایک زور دار آواز کے ساتھ بند کر دیا. رابعہ وہیں اپنی جگہ پتھر ہو چکی تھیں. "کشمالہ!!!" انہوں نے اسکو پکارا مگر اب دیر ہو چکی تھی وہ اسی رات کی تاریکی میں نکل چکی تھی. ایک غلطی کرنے کے بعد انسان غلطی در غلطی کرتا چلا جاتا ہے. اور کشمالہ نے بھی ایسا ہی کیا. اسکو لگا وہ جس راستے پے چل رہی ہے وہ اسکو واپس جہنم میں لے جا رہا ہے، جہاں سے وہ نکلنا چاہتی تھی. رات کا اندھیرا گہرا ہوتا جا رہا تھا. اسکے خوف میں اضافہ کرنے کے لیے کتوں کے بھونکنے کی آوازیں ہی کافی تھیں جو کہ ہر جگہ سے اسکو سنائی دے رہیں تھیں. "الله! میں کیا کروں... میں کہاں جاؤں... میری مدد کر..." کالے رنگ کے قمیض شلوار میں ملبوس، سر پر ویسا ہی کالے رنگ کا دوپٹہ لیے چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی کشمالہ اب بے سہارا تھی. مگر ایک ذات ہمشہ انسان کے ساتھ ہوتی ہے. چاہے انسان کسی بھی حال میں ہو. وہ انسان کو کبھی گرنے نہیں دیتا. ابھی اسکو چلتے ہوئے پانچ منٹ ہی ہوئے تھے کے اسکا سامنا ایک آدمی سے ہوا. وہ ادھڑ عمر قریب 45 سال کا آدمی تھا جو کہ سادہ لباس میں ملبوس تھا. اسنے قریب آکر کشمالہ کو بغور دیکھا. وہ اب بھی رو رہی تھی. "کون ہو لڑکی؟" اسنے کشمالہ سے سوال کیا. خاموشی. کشمالہ نے کوئی جواب نہیں دیا. بس نظریں نیچی ہی رکھیں. "لڑکی... بتاؤ کون ہو؟ کہاں سے آئی ہو؟ اتنی رات میں اس طرح اکیلے کہاں جا رہی ہو؟" ایک بار پھر خاموشی. "لگتا ہے گونگی ہے..." اسنے خود ہی کشمالہ کی خاموشی کی وجہ سوچ لی. "چلو لڑکی میرے ساتھ..." اس شخص کی اس بات پر اسنے سر اٹھا کر دیکھا. "بیٹا کبھی کسی ایرے غیرے پر بھروسہ مت کرنا. ایک لڑکی کے لیے بھروسے کے قبل صرف اسکا باپ اور بھائی ہوتے ہیں. اور شادی کے بعد اسکا شوہر بس..." اسکے دماغ میں ایک جملہ گونجا. وہ اسکے والد کی آواز تھی. "مجھے کہیں نہیں جانا!" بلا آخر وہ بول پڑی. "ہاں... مطلب گونگی تو نہیں ہے..." اس شخص کی تسلی ہو گئی. "دیکھو لڑکی میں تمہیں اس طرح یہاں اکیلے نہیں چھوڑ سکتا." اسنے کہا. "آپکو میری کیوں فکر ہے... جب میرے بھائی جان کو میری فکر نہیں ہوئی تو آپکو کیوں...؟" اسنے آنسؤں کے بیچ اس سامنے کھڑے انسان سے سوال کیا. کشمالہ کی اس بات پر اسکے کان کھڑے ہو گئے. "لڑکی.... بھائی جان.... نے گھر سے نکل دیا.... ہم... تم میرے ساتھ چلو بیٹا." اس شخص کا لہجے ایک دم نرم پڑ گیا. اسکو جیسے کچھ یاد آیا تھا. "میں نے کہا نا!" اسنے ایک بار پھر منع کیا. "دیکھو بیٹا میں انشااللہ تمہیں سہی جگہ پر لے جاؤں گا. تم پریشان مت ہو." اس نے بے حد نرمی سے کہا. "چلو..." اسکے اتنا کہنے پر کشمالہ اسکے پیچھے چل پڑی. اسکے علاوہ اسکے پاس اور کوئی راستہ بھی نہیں تھا.
**********
وہ اجنبی شخص اسکو ایک جگہ لے آیا. وہاں گھپ اندھیرا تھا. سڑک پر سٹریٹ لیمپ کی وجہ سے کچھ روشنی تھی مگر یہاں مکمل طور پر سیاہی پہلی تھی. کچھ مزید قدم وہ آگے بڑھی تو ایک کونے میں ایک مدھم سی روشنی جلتی ہوئی نظر آئی. اس مدہم سی پیلی روشنی کے نیچے ایک اور انجان شخص بیٹھا تھا. اسکے چوتھے کٹے بال تھے. ہلکی بڑھی شیو اور سخت نقوش. کھڑی ناک اسکو مغرور ثابت کرنے میں پیش پیش تھی. پہلی جھلک میں وہ ایک باروعب شخصیت معلوم ہوتی تھی. وہ اپنی نشست پر پیچھے کو ٹیک لگائے بیٹھا تھا. اسکے سامنے رکھی ٹیبل پر ایک ٹوپی رکھی تھی. وہ پولیس کیپ تھی. اندھیرے کی وجہ سے کشمالہ اسکو واضح طور پر دیکھ نہ سکی. "سر، یہ لڑکی مجھے بیچ سڑک پے کھڑی ملی." اس ادھیڑ عمر شخص نے بات کا آغاز کیا. "ہم... ٹھیک ہے میں دیکھ لیتا ہوں." اسنے کہا. "یہ تو.... کشمالہ...؟" اسنے سوچا. اپنے اس شک کو یقین میں تبدیل کرنے کے لیے اس نے کشمالہ سے سوال کیا. "ہاں بی بی، کون ہو؟ کہاں سے آئی ہو؟" اسنے سختی سے پوچھا. "سر، بے سہارا لڑکی ہے... اگر ہاتھ ہولا رکھیں تو..." "تم سے کسی نے پوچھا ہے علی! اپنا منہ بند رکھا کرو. مجھے پتا ہے کس کو کس طرح ہینڈل کرنا ہے. تم اپنا کام کرو. جاؤ!" اس نے پیچھے کھڑے اس شخص کو اچھی خاصی جھاڑ پلا دی. جس سے جواب میں وہ بندہ "اوکے سر" کہہ کر وہاں سے نکل گیا. "ہم... کیا منہ میں زبان نہیں ہے بی بی؟" وہ ایک بار پھر سخت لہجے میں بولا. "میں آپ لوگوں کے خلاف پولیس میں رپورٹ کروں گیں. میں ایس-پی صاحب کو بتاؤں گیں کہ آپ لوگ زبردستی مجھے پتا نہیں کہاں اٹھا لاۓ ہیں." اسنے روتے ہوئے کہا. "اچھا.. ایس- پی صاحب کو بتائیں گیں آپ؟... چلیں تو پھر بتائیں... go ahead." اسکی اس بات پر کشمالہ کا دماغ گھوم گیا. "کیا مطلب؟" اسنے اپنے دوپٹے سے اپنے آنسو پونچھے. "جی.. کیا ہوا بولیں نا! ایس-پی فاتح عالم!" اسنے اپنا تعارف کروایا. "آااہ.. وہ.. میں..." وہ کچھ کہ نہ سکی. "چلیں اب ذرا شرافت سے اپنا بھی تعارف کروا دیں. یا مجھے کوئی اور طریقہ استمعال کرنا پڑے گا؟" فاتح نے اس سے سوال کیا. "میں..." "ٹھیک ہے! مریم.. اس سے پوچھو کیا مسلہ ہے اس کا. میں لڑکیوں پر ہاتھ نہیں اٹھاتا." اسنے پیچھے کھڑی مریم کو مخاطب کیا مگر نظریں کشمالہ پر ہی گاڑیں رکھیں. فاتح کے پیچھے بھی اندھیرا تھا جس کی وجہ سے کشمالہ مریم کو دیکھ نہیں پائی. "جی بھائی.." کہہ کر اسنے ایک مدھم سی مسکراہٹ کشمالہ کی جانب اچھالی. "بلکہ سنو... تم لوگ گاڑی میں جا کے بیٹھو. تھانے ہی چلتے ہیں." فاتح نے حکم دیا. تھانے کا نام سن کر کشمالہ مزید ڈر گئی. "تھانے.....؟!" اسکے ماتھے پر شکنیں ابھرنے لگیں. "ارے فکر مت کریں آپ. کچھ نہیں ہوگا." مریم نے بہت نرمی سے اسکو تسلی دی. "چلیں!" کہہ کر اسنے کشمالہ کا ہاتھ پکڑا اور اسکو لے کر گاڑی کی جانب بڑھ گئی. وہ اور مریم گاڑی کی پچھلی سیٹوں پر بیٹھیں اور فاتح ڈرائیونگ سیٹ پر. بجلی کی سی رفتار سے اسنے گاڑی کو اڑا کر تھانے پھنچایا.
**********
کشمالہ نے اپنی روداد مریم کے گوشگ گزار کر دی. جب مریم نے فاتح کو تمام صورتحال سے آشناں کیا تو اسکا شک یقین میں بدل گیا. "ہم.. تو میں صحیح تھا. یہ لڑکی کشمالہ ہی ہے." اسنے مریم سے کہا. "بھائی جان، اب کیا کرنا ہے..؟ انکا بھائی اتنا ظالم کیسے ہوسکتا ہے؟ مجھے تو یقین ہی نہیں آرہا..." مریم کے لہجے میں ہمدردی تھی. "ہو سکتا ہے... ہر بھائی ہو سکتا ہے... مگر ہاں یہ بات تمہاری صحیح ہے کہ اسنے اپنی بہن کو گھر سے نکل کر بری غلطی کی ہے.... ٹھیک ہے کچھ سوچتے ہیں." اسنے ذرا رک کر اپنے دماغ میں ایک لائے عمل کو جنم دیا. "تم اس لڑکی کے پاس جاؤ.. اسے بات چیت کرو... وہ صدمے میں ہے..." فاتح نے مریم سے کہا تو وہ "جی بھائی" کہہ کر وہاں سے چلی گئی. "یہ سب میری ہی غلطی کی وجہ سے ہوا... میں اتنا غیرذمےدار کیسے ہو سکتا ہوں....؟ اسنے اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے زیر لب کہا. "اب غلطی میں نے کی ہے تو تکلیف بھی مجھے ہی اٹھانی پڑے گی..." اسنے سوچا اور اپنی نشست سے اٹھ گیا.
**********
"سنو...!" اسنے کشمالہ کو مخاطب کیا. "جی... آپ مجھ سے کچھ کہ رہے ہیں؟" کشمالہ کی پیٹھ اسکی جانب تھی جبھی وہ اسکو دیکھ نہیں سکی. اسکی آواز پر اک دم گڑبڑا گئی. "نہیں... میں ہواؤں سے باتیں کرتا ہوں." اسنے طنز کیا. "جی...؟ آاو وہ... جی کہیے کیا کہنا ہے آپکو.." کشمالہ کی آواز میں خوف تھا. صاف واضح تھا کہ اسکو ابھی تک ان لوگوں پر بھروسہ نہیں ہوا تھا جن کی بدولت وہ اس وقت تھانے میں تھی. "آپ کہاں رہنے والی ہیں..؟ آج رات؟" اسنے کشمالہ سے پوچھا. "میں...؟ وہ... امم... مجھے نہیں پتا..." اسنے مایوسی سے کہا. "جی... آپ نے بتا دیا انکو....؟" مریم نے کمرے میں داخل ہوکر فاتح کی جانب ایک سوال اچھالا. "نہیں..." اسنے مختصر سا جواب دیا. "کوئی بات نہیں میں بتادیتی ہوں... کشمالہ آپ ہمارے گھر پر رہنا چاہیں گیں؟" "ہمارے گھر...؟" اسکی سمجھ میں نہ آیا. "جی... میرے اور بھائی کے گھر پے..؟" مریم نے تفصیل بتائی. "نہں... میں کسی پر بھی بوجھ نہیں بنا چاہتی..." اسنے صاف انکار کر دیا. اسکا جواب سن کر فاتح آگ بگولہ ہو گیا. "میڈم صاحبہ یہ بات آپکو انار کلی بنے سے پہلے سوچنی چاہیے تھا!" اسکے لہجے میں غصّہ تھا. کشمالہ ایک دم سہم گئی. "میں مانتی ہوں میری غلطی ہے پر اب میں کیا کروں..؟" اسکی آنکھوں سے ایک بار پھر آنسو رواں ہو گئے. مگر فاتح ایسا انسان نہیں تھا جو اموشنل بلیک میل (emotional black mail) ہو جائے. "کہاں جائیں گیں آپ... نہ آپکو ہمارے گھر جانا ہے نہ آپ کہیں اور جا سکتیں ہیں...!" فاتح کی اس بات سے اسکو بہت تکلیف ہوئی. "اگر ابھی ضحی ہوتی تو رکھ لیتی نا مجھے اپنے پاس." اسنے سوچا اور آنکھوں سے بہتے آنسوؤں کی رفتار تیز ہوگئی. "بھائی کیا ہو گیا ہے... آرام سے بات کریں نا ان سے.." مریم کو بھی غصّہ آیا تھا. فاتح نے ایک نظر مریم پر ڈالی پھر واپس کشمالہ کو گھورنے لگا. "میں کسی کے بھی اتنے نخرے برداشت نہیں کرتا ہوں! اگر تو آپ یہ سمجھ رہیں ہیں کہ آپ لڑکی ہیں تو کان کھول کر سن لیں میں لڑکیوں سے بھی اسی لب و لہجے میں بات کرتا ہوں! اب میں آخری بار کہہ رہا ہوں... آپ ہمارے گھر ہی جائیں گیں.... میں یہاں تھانے پر ہی رہوں گا. آپ اور مریم گھر جائیں." کشمالہ نے کچھ کہنے کے لیے منہ کھولا مگر وہ سکی بات کاٹ گیا. "اب کیا مسلہ ہے آپکو..؟!" "آپ میری وجہ سے کیوں اتنی تکلیف اٹھائیں گے؟" اسکو فاتح سے ہمدردی ہوئی مگر وہ ہمدردی اگلے ہی لمحے ہوا ہو گئی جب اسنے فاتح کا جواب سنا. "آپکے ساتھ کیا پرابلم ہے.... میں اپنے ساتھ جو بھی کروں.. آپکو کیا ہے. مجھے وہ لوگ زہر لگتے ہیں جو میرے فیصلوں پر سوال اٹھائیں." وہ کہہ کر کمرے سے نکل گیا اور کشمالہ بس اسکو جاتا دیکھتی رہ گئی. "کشمالہ.. وہ بھائی.." مریم کا جملہ ادھورا ہی رہ گیا. کشمالہ پیر پٹختی ہوئی کمرے سے جا چکی تھی. "یار.... بھائی عجیب انسان ہیں آپ!" اسنے دل ہی دل میں فاتح کو برا بھلا کہا.
**********
"نام دیکھو فاتح عالم... اور میرے ساتھ رویہ انکا چنگیز خان جیسا ہے. ہونہہ!" کہہ کر اسنے اپنے دوپٹے کے کونے سے اپنی ناک رگڑی. وہ ابھی ابھی اچھا خاصہ رو کر بری مشکل سے چپ ہوئی تھی. "اچھا ایسا ہے کیا؟! ہم؟" وہ اس بات سے انجان تھی کہ فاتح عالم اسکے پیچھے ہی کھڑا ہے. فاتح کی آواز اسکے کان میں پڑی تو وہ اک دم سٹپٹا گئی. "آ.. وہ... میں..." وہ اب اسکے سامنے کھڑا تھا. جب اسکو کوئی جواب نہ سوجھا تو وہ excuse me کہہ کر وہاں سے نکل آئی. وہ وہاں کھڑا صرف اسکو دیکھتا رہ گیا. "عجیب لڑکی ہے.." وہ صرف سوچ کر رہ گیا.
**********
"چلو! گاڑی آ گئی ہے!" اسنے مریم اور کشمالہ کو مخاطب کیا. ان لوگوں کو تھانے میں بیٹھے ایک گھنٹہ ہو چکا تھا. فاتح گھر سے تھانے اور تھانے سے گھر تک کا سفر پولیس پٹرول میں ہی کیا کرتا تھا. اسکی اپنی گاڑی زیادہ تر گھر کے گیراج میں ہی رہا کرتی تھی. بلآخر ایک گھنٹے بعد پولیس پٹرول آ گئی اور وہ لوگ گھر کی جانب روانہ ہوئے. پندرہ منٹ کا سفر طے کر کے وہ لوگ گھر پوھنچے. "اپنا، گھر کا اور کشمالہ کا خیال رکھنا..." اسنے مریم سے کہا. "کیوں بھائی... کیا بات ہے... کشمالہ.. ہمم؟" مریم نے اسکو چھیڑتے ہوئے کہا. "بکو مت.. پاگل انسان! جاؤ وہ وہاں کھڑی انتظار کر رہ ہے. کسی بھی چیز کی ضرورت ہو تو مجھے ایک کال کر دینا. ٹھیک ہے؟" اسنے اپنی بات کی تصدیق چاہی. "ٹھیک ہے بھائی... ویسے اب آپکو شادی کر لینی چاہیے..." کہہ کر وہ پلٹ گئی. وہ بس اسکو گھور کر رہ گیا. "فضول باتیں کروا لو اس سے..." اسنے زیر لب کہا اور گاڑی سٹارٹ کی. فاتح مریم اور کشمالہ کو اپنے گھر کے دروازے پر چھوڑ چکا تھا اور اب واپسی کی جانب گامزند تھا. دوسری طرف مریم کشمالہ کو لے کر اپنے کمرے میں آگئی. "کشمالہ آپ یہ چادر لے لیں... آپ پردہ کرتی ہیں نا.. سوری اس وقت میرے پاس کچھ نہیں تھا ورنہ میں آپکو دے دیتی. آپکی بےپردگی ہو گئی نا... سوری!" اسنے کہا اور ایک چادر کشمالہ کو تھاما دی. "آپکو کیسے پتا کہ میں پردہ کرتی ہوں؟" کشمالہ نے پوچھا. "ارے مجھے تو آپکے بارے میں سب پتا ہے... اپکا نام.. گھر.. آپکے گھر والے.. دوست... میں آپکے بارے میں سب کچھ جانتی ہوں." اسنے نرمی سے کہا اور بیڈ پر اسکے برابر میں آبیٹھی. "کیا مطلب!؟ لیکن کیسے؟!" اسے بہت حیرت ہوئی. "بھائی نے بتایا ہے... وہ بھی آپکے بارے میں سب جانتے ہیں.. اس وقت تھانے میں وہ اس لیے انجان بن رہے تھے کیونکہ انکو صرف شک تھا کہ آپ کشمالہ ہیں. اپنے شک کو یقین میں تبدیل کرنے کے لیے انہوں نے آپ سے پوچھا تھا. اور جہاں بات ہے کہ وہ کیسے اور کیوں آپ کے بارے میں جانتے ہیں تو اس کا جواب ہے کہ آپکی جو دوست ہے نا عالیہ..." اسکا جملہ ادھورا رہ گیا جب اسنے کشمالہ کے چہرے پر امنڈتی تکلیف کو دیکھا. "اسے پلیز میرا دوست مت کہیں..." کشمالہ نے صرف اتنا ہی کہا. "اوہ سوری... تو وہ جو لڑکی ہے نا عالیہ وہ... وہ بہت بڑی بلیک میلر ہے. اسکا باپ بھی یہی کام کرتا تھا مگر ہمیشہ سے نہیں. عالیہ کی پیدائش کے بعد سے انہوں نے یہ کام شروع کیا. وہ لوگ بہت غریب تھے. دو وقت کی روٹی تک نہ ہوتی تھی ان کے پاس. عالیہ کی ماں ہر وقت بٹ صاحب کو پریشان کرتیں تھیں. اور جب عالیہ پیدا ہوئی تو ان لوگوں کے خرچے بڑھ گئے. آپ جانتی ہیں... اچھائی کے جتنے کم راستے ہوتے ہیں برائی کے اتنے ہی آسان راستے ہوتے ہیں. تو بس... کسی کے کہنے میں آکر بٹ صاحب نے یہ کام شروع کر دیا. اور جب انکو اس کام سے منافع ہونے لگا تو انہوں سے اسی کام کو بڑھایا اور جب عالیہ بڑی ہوئی تو اسنے بھی یہی کام کرنا شروع کردیا. اور سب سے حیران کن بات... ان کو بہت کام لوگ جانتے ہیں. عالیہ کی خاندان کی حقیقت آپکی یونیورسٹی میں بھی کوئی نہیں جانتا. اور جو پروفیسرز جانتے ہیں ان کو اس نے مار دینے کی دھمکی دے رکھی ہے. آپ بھی نہیں جنتیں تھیں نا؟ عالیہ کی اصلیت؟" اسنے کشمالہ سے سوال کیا. کشمالہ کے چہرے پر ایک رنگ آرہا تھا اور ایک رنگ جا رہا تھا. "میں تو... اتنے سالوں سے اسکی دوست ہوں مگر آج تک اسکی حقیقت تک نہیں پوھنچ سکی...." اسنے بےساختہ اپنے منہ پر ہاتھ رکھ لیا. "مریم آپ اور آپکے بھائی عالیہ کو کیسے جانتے ہیں؟" اسکے ذہن میں ایک اور سوال آیا. "ہمارے ابّو اور عالیہ کے ابّو بچپن سے دوست تھے. ہر کوئی رشک کرتا تھا ان دونوں کی دوستی پر. مگر جب بٹ صاحب غلط رہ پر نکل گئے تو ابّو کو بہت غصّہ آیا. ہم لوگوں کے حالات بھی اس وقت کوئی خاص اچھے نہیں تھے. مگر ابّو عالیہ کی فیملی کو financially بہت سپورٹ کرتے تھے. پر جب ابّو کو یہ بات معلوم ہوئی کہ وہ ایک بلیک میلر بن گئے ہیں تو... ایک دن ابّو اور بٹ صاحب کے درمیان بہت جھگڑا ہوا. ابّو نے انکو روکا کہ یہ کام غلط ہے مگر وہ نہیں مانے. ابّو کو اپنے دوست کی فکر تھی. مگر بٹ صاحب.... انہوں ابّو کی پیٹھ میں چھرا گھونپ دیا.... انہوں نے ابّو کا قتل کر دیا... اس گولی کی آواز آج بھی میرے کانوں میں گونجتی ہے جو انہوں نے ابّو پر چلائی تھی... بھلا ایسا کون سا دوست ہوتا ہے جو اپنے ہی دوست کا قتل کر دے..." اپنی بات مکمل کرکے اسنے کشمالہ کی جانب دیکھا. کشمالہ نے اسکی آنکھوں میں تیرتے آنسؤں کو دیکھا تھا. "ای ام سو سوری (I am so sorry)" کشمالہ نے کہا. "ایٹس اوکے یار! ابّو تو ابّو، امی بھی ہمیں چھوڑ کر چلی گئیں. ابّو کا غم نہیں برداشت ہوا ان سے. بس..... اسکے بعد سے بھائی نے ہی مجھے سمبھالا.... وہ ہمیشہ سے اتنے غصّے والے نہیں تھے. حالات کی وجہ سے وہ ایسے ہو گئے ہیں... ان کی جگہ میں تم سے معافی مانگتی ہوں. پلیز انھیں معاف کردو. انہوں نے تم سے بہت غصّے سے بات کی تھی." آنسو لڑھکتے ہوئے اسکے ہاتھ پر جا گرے. کشمالہ نے آگے بڑھ کر سکو گلے لگا لیا. "مریم تو مجھ سے زیادہ تکلیف میں ہے.." اسنے سوچا. وہ دونوں ساری رات باتیں کرتے رہے. کشمالہ اور مریم نے ایک دوسرے کو اپنی اپنی زندگیوں کے بارے میں بتایا. .
**********
فجر کی آذان کے ساتھ ہی کشمالہ کی آنکھ کھلی. موازن کی آواز میں اس قدر خوبصورتی تھی کہ شدید نیند کے باوجود وہ اپنے بستر سے نکلی اور واش روم کی تلاش میں کمرے سے باہر آگئی. رات کو وہ اور مریم کمرے میں آکر ایسا بند ہوئیں کہ دوبارہ باہر نہ آۓ. باتیں کرتے کرتے وہ کب سو گئے ان لوگوں کو پتا ہی نہیں چلا. "اب میں یہاں واش روم کیسے ڈھونڈوں؟" اسنے اپنے آپ سے سوال کیا. "آپ واش روم ڈھونڈ رہی ہیں؟" اسکے کان میں کسی کی بھاری آواز سنائی دی. وہ ایک دم پلٹی. ابھی وہ چیخنے والی ہی تھی کہ مقابل نے اپنے ہونٹوں پر انگل رکھ کر اسکو خاموش کروایا. "کیا ہو گیا؟ کھانے تھوڑی آیا ہوں آپکو.. آپ واش روم ڈھونڈ رہی ہیں نا.. سیدھا جا کر الٹے ہاتھ پر ہے...." اسنے کشمالہ کا مسلہ حل کیا. "آپ...؟ یہاں؟" اسنے ڈرتے ڈرتے ہلکی آواز میں کہا. "کیوں کیا اپنے گھر آنے کے لیے انسان کو کسی کی اجازت کی ضرورت ہوتی ہے؟" اسنے پوچھا. "نہیں میرا مطلب کہ آپ تو تھانے میں تھے نا تو یہاں کیسے؟" "میرا کچھ سامان یہاں رہ گیا تھا اور پھر اس مریم کو بھی تو اٹھانا ہے نا. مجھے پتا تھا آپ خود نماز پڑھ لیں گیں. میری بہن کو نہیں اٹھائیں گیں.. اس لیے میں آ گیا. کیوں آپکو کوئی مسلہ؟؟؟" اپنی بات مکمل کر کے اس نے کشمالہ سے ایک اور سوال کر ڈالا. "نہیں..." کہہ کر وہ آگے بڑھ گئی مگر فاتح کی آواز پر دوبارہ پلٹی. "سنیں..." "جی...؟" "آپکو مسلہ ہونا بھی نہیں چاہیے..." کہہ کر وہ ہاتھ میں پکڑی ٹوپی کو سر پے پہناتا ہوا میں گیٹ سے باہر نکل گیا. "ہیں....؟ کیا انسان ہیں یہ؟ ہر بار مجھے لاجواب کر دیتے ہیں...." اسنے سوچا اور واش روم کی جانب بڑھ گئی.
**********
وضو کر کے وہ واپس کمرے میں آئی اور جائے نماز ڈھوڈنا چاہی. بیڈ پر جس جگہ وہ سوئی تھی تھی وہاں جائے نماز رکھی تھی. ساتھ ہی ایک کاغذ کا ٹکڑا بھی رکھا تھا. جس پر لکھا تھا. "اب آپ جائے نماز ڈھونڈ رہی ہیں؟... یہ لیں! اور پلیز مریم کو بھی اٹھا دیں. اسکی نیند بہت گہری ہے بغیر کسی کہ اٹھائے وہ اٹھتی نہیں ہے." اسنے زیر لب وہ جملے پڑھے. اسکے ہونٹوں کو ایک ہلکی سی مسکراہٹ نے چھو لیا. کاغذ کو نیچے رکھ کر اسنے مریم کو آواز دی. "مریم اٹھ جائیں.. فجر کی آذان ہو گئی ہے..." اب وہ جائے نماز بچھا چکی تھی. "مریم!" اسنے ذرا زور سے کہا. "امم... اٹھ رہی ہوں بھائی..." مریم نے کہا. "بھائی..؟" کہہ کر وہ ہنس پڑی. نماز پڑھ کر اسنے مریم کو دوبارہ جگانا چاہا. "مریم آپ ابھی تک سو رہیں ہیں... نماز قضا ہو جائے گی." اسنے مریم کا ہاتھ ہلاتے ہوئے اسکو بیدار کیا. "ہمم.." کہہ کر وہ دوسری کروٹ لینے لگی تو کشمالہ نے اسکو ایک اور آواز دی. "مریم! مومن نماز کی پابندی کرتا ہے!" اسنے نرمی سے کہا. "جی بھائی!" کہہ کر اس نے اپنی آنکھیں کھول دیں. "کشمالہ آپ؟.... آپ مجھے اٹھا رہیں تھیں؟ وہ بھائی نہیں تھے؟" اسنے معصومیت سے پوچھا. تھی تو وہ ١٩ سال کی مگر سوتی وہ ایسے ہی جیسے کوئی چھوٹا بچا سوتا ہے. سوتے ہوئے اسے کسی چیز کا ہوش نہ ہوتا تھا. یہی وہ بات تھی جو کشمالہ کو بار مسکرانے پر مجبور کر رہی تھی. "آپکو واقعی نہیں پتا چلا کہ یہاں آپکے بھائی نہیں میں ہوں؟" اسنے مریم سے پوچھا. "جی مجھے نہیں پتا چلا... بھائی بھی ہمیشہ مجھے یہی کہتے ہیں. "مریم! مومن نماز کی پابندی کرتا ہے!" اسنے اپنے بھائی اور کشمالہ کے جملے کو دوہراتے ہوئے کہا. "آا.. اچھا... چلیں اب آپ اٹھ جائیں... نماز قضا نہ ہو جائے." کہہ کر وہ وہاں سے اٹھ گئی. مریم بھی اپنے بستر سے نکلی اور واش روم کی جانب بڑھ گئی.
**********
صبح کے دس بج رہے تھے جب وہ لوگ ناشتہ کرنے کے لیے بیٹھے. فجر کی نماز پڑھ کر وہ دونوں سو گئیں تھیں. "مریم.. آپ نے اپنے بھائی کے لیے بھی ناشتہ بنا لیا ہے.. مگر وہ ابھی تک نہیں آۓ." کشمالہ کے لہجے میں شکوہ تھا. "ارے کشمالہ آپ فکر مت کریں... بھائی نے کہا ہے وہ آئیں گے تو وہ ضرور آئیں گے بس ذرا ٹائم اپر نیچے ہو جاتا ہے." اسنے ایک نرم مسکراہٹ کے ساتھ کشمالہ کو جواب دیا. "اور اگر وہ نہیں آۓ؟ just imagine کہ وہ نہیں آۓ تو.. رزق کی توہین نہیں ہوگی... رزق کو انتظار نہیں کرواتے." کشمالہ نے کرسی پر بیٹھتے ہوئے کہا. "میں imagine ہی نہیں کروں گیں. آپ دیکھ..." اسکا جملہ مکمل نہ ہو سکا. دروازہ کھلنے کی آواز آئی. "دیکھا آ گئے بھائی.. کہا تھا نا میں نے." مریم نے فاتح کو دیکھتے ہی کشمالہ سے کہا. "کیا ہوا.. میری یاد آرہی تھی کسی کو..؟" فاتح نے انجان بنے کی کوشش کی. جس لمحے کشمالہ کو معلوم ہوا کہ فاتح آ گیا ہے اسی لمحے اس نے اس چادر سے نقاب کر لیا جو چادر رات کو مریم نے اسکو دی تھی. "بھائی زیادہ بنیں مت... کوئی یاد نہیں کر رہا تھا. وہ تو بس کشمالہ نے پوچھا کہ.." وہ چپ ہو گئی کیونکہ اسنے کشمالہ کی اسکو گھورتی ہوئی آنکھوں کو دیکھ لیا تھا. مگر مریم اکیلی نہیں تھی جس نے اسکی آنکھوں کو دیکھا تھا فاتح نے بھی دیکھا تھا. "کیا ہوا کشمالہ؟ آپ مریم کو چپ رہنے کے اشارے کیوں کر رہی ہیں؟ ہمم؟" اسکی بات سن کر کشمالہ اک دم کنفیوز ہو گئی. "آاہ... وہ ...میں.." "ایک تو آپ ہر بار مجھے ہر بات کا یہی جواب دیتی ہیں "آاہ.. وہ... میں ..." کیا وہ میں؟ ہیں کیا وہ میں؟" فاتح کی اس بات سے وہ مزید گھبرا گئی. کشمالہ کی حالت غیر ہوتی دیکھ مریم نے فاتح کو مخاطب کیا. "بھائی... بس کر دیں... کیوں تنگ کر رہے ہیں آپ ان کو؟" اسنے ہنستے ہوئے کہا. "ارے میں کیوں تنگ کروں گا..." اسنے اپنی ہنسی دباتے ہوئے کہا. "اچھا.. اب ناشتہ شروع کر لیں بھائی.. ٹھنڈا ہو رہا ہے." مریم نے فاتح کو یاد دلایا کہ سامنے ناشتہ بھی رکھا ہے. "ہاں.. اچھا بس بہت ہنسی مذاق ہو گیا... کشمالہ مجھے آپ سے کچھ بات کرنی تھی. تو I think its the best time." وہ ایک دم سنجیدہ ہو گیا. "جج..جی.. کیا بات کرنی تھی؟" کشمالہ اب تک ڈری ہوئی تھی. "ایک منٹ.. پہلے میں آپکو یہ بات کلیر کر دوں کشمالہ کہ بھائی انسانوں کو نہیں کھاتے.." مریم کی بات پر فاتح ایک بار پھر ہنس پڑا. پہلے تو کشمالہ کو مریم کی بات سمجھ نہیں آئی مگر جب وہ سمجھ گئی تو ذرا شرمندہ سی ہو گئی. جبکہ فاتح اور مریم اب تک ہنس رہے تھے. "مریم بس... کشمالہ اب آپ کا کیا ارادہ ہے؟ ایک رات تو آپ نے ہمارے گھر پر گزار لی.. آگے کے لیے کیا پلانز ہیں؟" فاتح نے چائے کا ایک گھونٹ بھرا. "میں.. میں نے کچھ سوچا نہیں ہے..." کشمالہ نے واقعی کچھ نہیں سوچا تھا. وہ بس اپنے راب پر بھروسہ کر کے چل پڑی تھی. اسکی منزل کہاں تھی وہ نہیں جانتی تھی. "ہم.. اگر میں کہوں کے آپ آج واپس اپنے گھر جائیں تو؟" فاتح نے اس سے سوال کیا. "میں گھر نہیں جا سکتی... بھائی جان نے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے مجھے گھر سے نکل دیا ہے. میں خود بھی واپس گھر نہیں جانا چاہتی." اسکی آنکھوں کے سامنے دوبارہ وہ تمام مناظر لہرانے لگے جب دانیال نے اسکو دھکے دے کر گھر سے نکالا تھا. اسکی آنکھیں نم ہو گئیں. فاتح کے چہرے کے تاثرات کو دیکھ کر صاف معلوم ہوتا تھا کہ اسکو کشمالہ کی بات ذرا پسند نہیں آئی. "آپکو اپنی اور اپنے بھائی کی فکر ہے... اپنی ماں کی ذرا فکر نہیں ہے.. رات سے رو رو کر انکا کیا حال ہے کچھ علم ہے آپکو؟!" اسنے سختی سے کہا. "امی...." آنکھوں میں جمع ہوتے آنسو ایک دم باہر کو نکلے اور پھر بہتے چلے گئے. "آپ میرے ساتھ شام میں اپنے گھر جائیں گیں!" فاتح نے اپنا فیصلہ سنایا. آج تک کسی کی اتنی حمّت نہیں ہوئی تھی کہ اسکے فیصلے کو رد کرے یا اس پر سوال اٹھائے. مگر کشمالہ نے اسکے منہ پے اسکے فیصلے کو رد کر دیا. "نہیں!!! میں نہیں جاؤں گیں! اگر آپکو مجھ سے اتنی ہی تکلیف ہے تو نکال باہر کریں مجھے. ویسے بھی مجھے نہیں رہنا آپ جیسے چگیز خان کے گھر میں!" کہہ کر وہ اپنی کرسی سے اٹھی اور لاؤنج سے ہوتی ہوئی مریم کے کمرے میں آگئی. فاتح وہاں بیٹھا صرف اپنی مٹھیاں بہینچتا رہ گیا. "بھائی..." فاتح کو کھڑے ہوتے دیکھا تو مریم نے اسکو پکارا. "اس بدتمیز اور بدتہذیب لڑکی کو کہہ دینا کہ آج نہیں تو کال اسکو واپس اپنے گھر جانا ہی ہو گا." کہہ کر وہ جس راستے سے گھر میں آیا تھا وہیں سے واپس لوٹ گیا. "یاررررررر!" مریم نے ٹیبل پر ہاتھ مارا. "کبھی جو ان لوگوں کے مزاج مل جائیں."
**********
"مریم.." کشمالہ نے کسی کتاب میں گھسی مریم کو پکارا. مریم نے کوئی جواب نہیں دیا. "مریم... سوری نا.. اچھا پلیز سوری!" کشمالہ نے اسکو منانا چاہا. صبح سے ان دونوں کے درمیان کوئی بات نہیں ہوئی تھی. مریم کو کشمالہ کا اپنے بھائی سے برا رویہ اچھا نہیں لگا تھا. "یہ سوری نا آپ بھائی سے کریں..." وہ اپنی بات مکمل کر کے کھڑی ہونے لگی تو کشمالہ نے اسکا ہاتھ پکڑ کے اسکو واپس بیڈ پر بیٹھا دیا. "میں... اپنے گھر نہیں جا سکتی مریم.. وہ میری بات کیوں نہیں سمجھتے..؟" اسکی آواز سے دکھ جھلک رہا تھا. "میں تو سمجھ سکتی ہوں نا.. مگر آپکو بھائی سے اتنا rude نہیں ہونا چاہے تھا. آپ پلیز ان سے سوری کر لیں نا." اسنے التجا کی. "مریم... مجھے ان سے ڈر لگتا ہے..." اسنے بے پناہ معصومیت سے کہا جس نے مریم کو مسکرانے پر مجبور کر دیا. "ارے.. بھائی سے ڈر کیوں لگتا ہے؟" "وہ ہر وقت اتنے غصّے میں رہتے ہیں..." اسنے وجہ بتائی. "اچھا... میں اب سمجھی. آپ کو کبھی کسی نے ڈانٹا نہیں ہے نا. اس لیے آپکو عادت نہیں ہے... مگر کوئی بات نہیں آپ بس بھائی کی بات مانیں. پھر وہ غصّہ نہیں کریں گے. اوکے؟... اور پلیز آپ ابھی ان سے سوری کر لیں." مریم نے اسکو حل بتایا. "اچھا..." مریم نے ایک لمبی سانس اپنے اندر اتاری اور پھر کہا. "شام میں بھائی آئیں گے نا جب کر لیجیے گا سوری. میں بھی ان سے کہہ دے دوں گیں کہ آپ پے غصّہ نہ کریں." مریم نرمی سے مسکرائی.
**********
"کشمالہ، بھائی آ گئے!" مریم نے کمرے میں آکر کشمالہ کو خبر سنائی. "اا.. اچھا. میں آتی ہوں." کہہ کر کشمالہ نے اپنی چادر اٹھائی اور اس سے اپنے چہرے کو چھپایا. "اسلام علیکم!" فاتح لاؤنج میں رکھے صوفوں میں سے ایک پر آبیٹھا. مریم کے سلام کے جواب میں اسنے ہلکہ سا سر کو خم دیا. وہ فون کو کان سے لگائے کسی سے گفتگو کرنے میں مصروف تھا. "ہاں.. کشمالہ میرے گھر پے ہی ہے. اسکے گھر کو گھیرے میں لیے رہنا مگر کسی کو پتا نہ چلے." "ہم.. مجھے بھی یہی لگتا ہے.. اسکو کم ازکم ایک ہفتے تو اپنے گھر پے ہی رکھنا ہو گا مجھے. اور ہاں اسکی ویڈیو کی ڈیلیٹ کرنے کا معاملہ حل ہوگیا؟... چلو گریٹ!" اسنے مقابل کے کسی سوال کے جواب میں اپنی بات رکھی. "ٹھیک ہے.. ورنہ عالیہ کو شک ہو سکتا ہے. مجھے لگتا ہے وہ مجھے نوٹ کر چکی ہے.... ہاں ہاں خیال تو رکھنا ہی ہے. اپنے سے زیادہ اپنی بہن کا اور کشمالہ کا. اگر اسکو کچھ ہو گیا تو مجھ سے ہی سوال کیا جائے گا.... ٹھیک ہے تم عالیہ کی ہر حرکت پر نظر رکھو... الله حافظ!" بات ختم کر کے اسنے موبائل کو اپنے کالے کرتے کی دائیں جیب میں ڈال دیا. "جی.. آپکو کوئی کام ہے مجھ سے؟ اتنی دیر سے یہیں کھڑیں ہیں آپ." فاتح نے اپنے برابر کھڑی مریم کو دیکھ کر اس سے سوال کیا. "بھائی وہ.. آپ کشمالہ سے ذرا آرام سے بات کریے گا. وہ آپ سے سوری کرنا چاہتیں ہیں." مریم نے فاتح سے گزارش کی. "اچھا.. ٹھیک ہے دیکھا جائے گا." اسنے مریم کی بات کا گول مول سا جواب دیا. ابھی وہ فاتح سے بات کر ہی رہی تھی کہ کشمالہ لاؤنج میں داخل ہوئی. "آجائیں کشمالہ!" مریم کہہ کر خود وہاں سے چلی گئی. "آ.. I am sorry" کشمالہ نے کھڑے کھڑے ہی بات کا آغاز کیا. اسکی آواز پر فاتح نے اپنی نظریں اٹھا کر دیکھا. "بیٹھیں!" فاتح نے کہا. ابھی وہ فاتح کو منع کرنے ہی والی تھی کہ اسے مریم کی کہی بات یاد آئی. "آپ بھائی کی بات مانیں وہ غصّہ نہیں کریں گے." وہ خاموشی سے اسکے برابر والے صوفے پے بیٹھ گئی. کچھ لمحے خاموشی کے نام ہوئے پھر فاتح نے کشمالہ کو مخاطب کیا. "آپ کچھ کہنے آئیں تھیں؟" فاتح نے اسکو یاد دلایا. "جج.. جی. I am sorry میں نے آپ سے اس وقت بہت بدتمیزی کی تھی. مجھے معاف کر دیں." کشمالہ نے نظریں جھکائے کہا. "Its okay مگر آئندہ خیال رکھیے گا." فاتح کا جواب سنتے ہی وہ اپنی جگہ سے اٹھنے لگی مگر اسکی آواز پر روک گئی. "سنیں..." "جی؟" "واپس بیٹھ جائیں.. مجھے آپ سے تفصیلی گفتگو کرنی ہے." فاتح نے کہا. "کس بارے میں؟" کشمالہ نے سوال کیا. "میں جانتا ہوں.. آپ اپنے گھر نہیں جانا چاہتیں نا؟" فاتح نے اس سے پوچھا. اسکی آواز میں نرمی تھی. "نہیں.. کم از کم ابھی تو نہیں.." اسنے سیدھا سادھا جواب دیا. "اوکے. مت جائیں. آپ یہیں رہ لیں. مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے. مگر مجھ سے وعدہ کریں کہ آپ ایک ہفتے کے بعد میرے ساتھ اپنے گھر جائیں گیں. تو ہی میں آپکو یہاں رہنے کی اجازت دے سکتا ہوں." اس نے کشمالہ کے آگے ایک شرط رکھی. "مجھے بھائی سے بہت ڈر لگ رہا ہے فاتح..." اسکے ماتھے پر شکنیں نمایاں ہونے لگیں. وہ انجانے میں فاتح کا نام لے گئی. جس بات کا اسکو بعد میں احساس ہوا. "الله تیرا شکر آپ نے مجھے پھر چنگیز خان نہیں کہا.... ویسے میں آپکو کس سائیڈ سے چنگیز خان لگتا ہوں؟ ہم؟" اسنے ہنستے ہوئے کہا. "آ.. وہ بس ایسے ہی نکل جاتا ہے منہ سے." جب اسے کوئی جواب نا سوجھا تو جو منہ آیا بول گئی. "اچھا..؟ حیرت کی بات ہے..." اسنے کچھ سوچتے ہوئے کہا. "بس وہ غلطی سے نکل جاتا ہے آئندہ نہیں کہوں گیں. انشااللہ!" اسنے دل میں پختہ ارادہ کیا. "اچھا تو آپ کہہ رہیں ہیں کہ آپکو دانیال سے ڈر لگ رہا ہے؟ ہم... آپکو ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے. وہ انشاللہ کچھ نہیں کہے گا. آخر کو بھائی ہے آپکا. دیکھیں غلطی آپ نے کی تھی اور غلطی کرنے کے بعد انسان کو اسکا ہرجانہ تو بھرنا ہی پڑتا ہے. I think آپکے لیے ایک ہفتے کی سزا کافی ہوگی. کیوں ہیں نا؟" اسنے کشمالہ کو سمجھایا اور آخر میں اس سے اپنی بات کی تصدیق چاہی. "پتا نہیں... تو آپکے کہنے کا مطلب میں ایک ہفتے آپکے گھر پر رہنے والی ہوں؟" اسنے فاتح کی بات کی جواب میں پوچھا. "آپکو.. سنائی نہیں دیتا؟" اسنے انتہائی سںجیدگی سے ایک بےتکا سوال کیا جس نے کشمالہ کو ہنسنے پر مجبور کر دیا. "ارے.. آپ سے کچھ پوچھا ہے.. آپ ہنس رہیں ہیں.." فاتح نے مزید کہا. "نہیں ہے مجھے کوئی سنے کا مسلہ.. بس یقین نہیں آیا کہ میں آپکے گھر ایک ہفتے رہوں گیں تو کیا آپ وہاں تھانے میں رہیں گے." کشمالہ کے لہجے میں ہمدردی تھی. "جی...! اچھا اب اگر اجازت ہو تو کیا میں ذرا دیر آرام کر لوں؟ کمر اکڑ گئی ہے تھانے میں کرسی پے بیٹھے بیٹھے." فاتح نے اٹھتے ہوئے کہا. "جی جی جائیں کر لیں آرام." کشمالہ نے ایک مدھم مسکراہٹ کے ساتھ اسکو اجازت دی. فاتح کے کمرے سے نکلتے ہی وہ بھی وہاں سے اٹھی اور مریم کے کمرے کی جانب بڑھ گئی.
**********
فاتح اور اسکے ساتھی عالیہ کا پیچھا کرتے رہے. کشمالہ اپنے بھائی جان اور امی کو یاد کر کے روتی رہتی. مگر مریم سے دوستی کی وجہ سے اسکا دل بھلا رہتا. وقت گزرتا گیا اور بلاآخر وہ دن آگیا جس دن کشمالہ کو فاتح کے ساتھ واپس اپنے گھر جانا تھا. مگر کشمالہ یہ بات نہیں جانتی تھی کہ آج اسکی ملاقات اپنے بھائی اور ماں سے نہیں بلکہ کسی اور سے ہونے والی ہے.
**********
وہ بیڈ پر اپنے گھٹنوں سے گرد ہاتھ لپٹے ان پر اپنے اپنا سر رکھے کسی گہری سوچ میں گم تھی. اسکی سوچ کے بادل تب چھٹے جب موبائل بجنے کی آواز اسکی سماعت سے ٹکرائی. اسنے ہڑبڑا کر سائیڈ میں پڑے موبائل کو اٹھایا تو "انسپکٹر صاحب کالنگ" لکھا نظر آیا. کال رسیو کر کے اسنے موبائل کو کان سے لگایا تو فاتح کی آواز کان میں پڑی. "اسلام علیکم! کشمالہ کیسی ہیں آپ؟" بات کا آغاز فاتح کی جانب سے ہوا. "وعلیکم اسلام! میں بلکل ٹھیک ہوں آپ بتائیں." اسنے بھی فارمیلٹی کو پورا کیا. "میں بھی بلکل ٹھیک الحمدللہ. اچھا میں نے آپکو اس لیے کال کی تاکہ آپکو بتا سکوں کہ میں آپکو لینے آرہا ہوں." اسنے کال کرنے کی وجہ بتائی. "لینے؟ ابھی سے؟ آپ نے تو کہا تھا کہ میرے گھر شام میں جائیں گے. ابھی تو آپ اپنی ڈیوٹی پے ہوں گے نا؟ تو پھر؟" اسکے ذہن میں ایک دم کافی سارے سوالات پیدا ہونے لگے. "Coming in 5 minutes ریڈی رہیے گا!" کہہ کر اسنے کال کاٹ دی.کشمالہ کو کافی عجیب لگا. "کیا انسان ہیں یہ؟ اف!" اسنے سوچا ساتھ ہی بیڈ سے اتری اور الماری کی جانب بڑھی. وہاں سے ایک عبایا اور سکرف نکالا. وہ مکمل طور پر جانے کے لیے تیار ہو گئی تو کمرے سے باہر آئی. کچن میں موجود مریم نے اسکو ابایے میں ملبوس دیکھا تو اس سے پوچھا. "کشمالہ! آپ کہیں جا رہیں ہیں؟" اسکو خاصی حیرت ہوئی تھی. "جی وہ آپکے بھائی نے کہا ہے کہ وہ لینے آرہے ہیں. پتا نہیں کہیں جانا ہے. میرے گھر تو ابھی نہیں جا رہے." ابھی وہ بتا ہی رہی تھی کہ اسکا موبائل بج اٹھا. "جلدی آئیں! میں کب سے انتظار کر رہا ہوں." کہہ کر فاتح نے کال کاٹ دی. اور کشمالہ بس یہی سوچتی رہ گئی کہ یہ انسان اتنی جلدی کیسے پوھنچے؟ "مریم! میں جارہی ہوں! الله حافظ!" بغیر مریم کا جواب سنے وہ جلدی جلدی باہر نکل آئی. کچھ فاصلے پر اسکو ایک پولیس موبائل کھڑی نظر آئی تو وہ اسکی جانب بڑھ گئی. ڈرائیونگ سیٹ پے ایک ڈرائیور بیٹھا تھا. اسکے ساتھ والی سیٹ پر فاتح اپنی وردی میں ملبوس بیٹھا تھا. اسکے چہرے پر بیزاری رقم تھی. "سوری!" کشمالہ نے کہا اور گاڑی کی پچھلی سیٹوں میں سے ایک پر جا بیٹھی. "ٹھیک ہے... چلو عادل!" کشمالہ کو جواب دے کر اسنے ڈرائیور کو چلنے کے لیے کہا. حکم ملتے ہی گاڑی سٹارٹ کر دی گئی. سارا سفر خاموشی سے گزر گیا. نہ کشمالہ نے فاتح سے پوچھا کہ ہم کہاں جا رہے ہیں نہ ہی فاتح نے اسکو بتانے کی زحمت کی. ایک جھٹکے سے گاڑی رکی. کشمالہ کی نظروں کی سیدھ میں تھانے کی عمارت کھڑی تھی. "چلیں!" فاتح کی آواز پر وہ گاڑی سے نیچے اتری اور اسکے پیچھے چل پڑی. "آپکو کسی سے ملوانا ہے." فاتح نے ہلکی آواز میں اسکو وہاں لاۓ جانے کی وجہ بتائی. اسنے فاتح کی بات غور سے سنی مگر کوئی جواب نہ دیا. "الله جانے اب کس سے ملوانا ہے. یا الله پلیز اب کوئی اور مصیبت نہیں." اسنے دل میں اپنے رب سے دعا کی. وہ لوگ چند قدم مزید آگے بڑھے. اب کشمالہ مکمل طور پر تھانے کی عمارت کو دیکھ سکتی تھی. اس رات وہ یہاں اندھیرے میں لائی گئی تھی. اس بھیانک رات کی سوچ سے ہی اسکی روح کانپ اٹھی. "آئیں!" فاتح اسکو لے کر اپنے آفس میں آگیا. سامنے رکھے ایک سوفے کی جانب اس نے اشارہ کر کے کہا. "بیٹھ جائیں!" اور کشمالہ نے ایسا ہی کیا. دروازے پر دستک ہوئی ساتھ ہی کوئی شخص اندر داخل ہوا. وہ بھی پولیس کی وردی میں ملبوس تھا. "سر، آپ آجائیں. ہم اسکو باہر لے آۓ ہیں." اس شخص نے کہا. "ٹھیک ہے تم چلو ہم آتے ہیں." فاتح کی بات سنتے ہی وہ شخص وہاں سے چلا گیا. "چلیں؟" اسنے کشمالہ سے پوچھا. "آ.. آپ مجھے کس سے ملوانے لاۓ ہیں؟" اسکے ماتھے پر شکنیں نمایاں ہونے لگیں. "پریشان مت ہوں. بس ایک بات یاد رکھیے گا. مجرم کو اسکے جرم کی سزا ضرور ملتی ہے. اور اگر مظلوم کے ساتھ ظلم ہوا ہو تو اسکو اپنا بدلہ لینے کا پورا پورا حق ہے." اسکی بات کشمالہ کی سمجھ نہ آئی. "جی؟ کیا مطلب؟" کشمالہ نے کہا. "سمجھ جائیں گیں. سمجھانے کے لیے ہی تو لایا ہوں... چلیں!" کہہ کر وہ کشمالہ کو لے کر اپنے کمرے سے باہر نکلا اور لوکپ ایریا میں آگیا. ہر لوکپ میں ایک نہ ایک انسان بند تھا. انکی حالت دیکھ کر کشمالہ کی روح کانپ گئی. وہ لوگ انسان سے زیادہ ایک جانور کی سی زندگی بثر کر رہے تھے. جسم پر جگہ جگہ زخموں کے نشانات موجود تھے. کچھ گہرے زخم تھے تو کچھ ہلکے. مگر ان زخموں سے ابلتے خون کو دیکھ کر کشمالہ کو گھبراہٹ ہونے لگی. اسکے دائیں ہاتھ پر لائن سے بےشمار لوکپس تھے. ہر انسان پر وہ نظر ڈالتی اور گھبرہت میں اضافہ ہونے لگتا تو اسی پل اپنی نظریں کہیں اور کر لیتی. مگر ایک لوکپ پر اسکی نظریں جم سی گئیں. اس چہرے کو جانتی تھی. پہچانتی تھی. اسکا بچپن سے لے کر جوانی تک کا سفر اسی انسان کے ساتھ ہوا تھا. بھلا وہ کیسے اسکو نہ پہچانتی. مگر اس چہرے پر بے شمار چوٹوں اور زخموں کے نشانات موجود تھے جن سے خون رس رہا تھا. اس کو دو لیڈی کانسٹیبل پکڑ کر باہر لارہے تھے. ہاتھوں میں ہاتھ کڑیاں لگی ہوئی تھیں. اسکو دیکھ کر کشمالہ اک دم اسکی جانب لپکی مگر فاتح نے اسکو روک لیا. "کشمالہ!" فاتح کی آواز میں سںجیدگی تھی. کشمالہ نے مڑ کر اسکو دیکھا اور پھر واپس اپنی جگہ پر آگئی. کشمالہ کو عالیہ کو دیکھ کر یقین نہ آیا. کچھ ایسی ہی حالت عالیہ کی بھی تھی. وہ جانتی تھی کہ فاتح نے کشمالہ کو اپنے گھر میں پناہ دی ہوئی تھی مگر یہ نہیں جانتی تھی کہ فاتح اسکو کو یہاں لے آۓ گا. "عالیہ!!!" شدت جذبات سے کشمالہ کی آنکھیں نم ہو گئیں. "کک.. کش.. کشمالہ.. تت.. تم؟" عالیہ نے بری مشکل سے اٹک اٹک کر کہا. "ہاں میں!!!" کشمالہ کو سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ عالیہ پر اپنا غصّہ نکلے یا اس پر ترس کھائے. اسکی مشکل آسان کرنے کے لیے فاتح بول پڑا. "کشمالہ مجھے امید ہے کہ آپ کوئی بیوقوفی نہیں کریں گیں. آپکو یاد ہے نا جو میں نے ابھی آپکو کہا تھا." کشمالہ نے ایک نظر فاتح کو دیکھا اور پھر واپس عالیہ کی جانب مڑ گئی. اسنے تین چار چھوٹے چھوٹے قدم اٹھائے اور عالیہ کے سامنے آکھڑی ہوئی. "کشمالہ میں تمہیں بتاتی ہوں..." عالیہ کا جملہ ادھورا رہ گیا. کشمالہ اسکی بات کاٹ گئی. "بس! مجھے کچھ نہیں سنا! بس ایک بتا دوں تمہیں. میرے نزدیک تم سب سے زیادہ اہم تھیں. ضحی سے بھی زیادہ اہم. مگر تم نے جو میرے ساتھ کیا نا! تمہیں میں نے اپنا سچا دوست منا تھا. مگر مجھے یہ سمجھنے میں دیر ہو گئی کہ تم دوست نہیں دشمن ہو! تم دوست کے نام پے دھبہ ہو. اور دوستی جیسے رشتے پر لگنے والا ایک کالا سیاہ داغ!" کشمالہ کی آنکھوں سے آنسوں کی برسات ہونے لگی تھی. "کشمالہ میں تمہیں... مجھے معاف کر دو پلیز!" عالیہ نے اسکی منت کی. "کشمالہ آپ اسکو جو سزا دینا چاہتیں ہیں، آپ دے سکتیں ہیں." فاتح نے کشمالہ کو مخاطب کیا. کشمالہ نے ایک بار عالیہ کی آنکھوں میں جھانکا. وہاں پچھتاوا تیر رہا تھا. "تم نے آج تک جو کچھ بھی میرے حق میں برا کیا عالیہ، میں تمہیں ان سب چیزوں کے لیے..." وہ اپنا جملہ مکمل نہ کر سکی. آنسؤں کی وجہ سے حلق میں ایک گولا سا اٹک گیا تھا. "میں تمہیں معاف کرتی ہوں!!!" کہہ کر کشمالہ نے فاتح کی جانب دیکھا اور کہا. "میں یہاں اب مزید نہیں رہنا چاہتی فاتح." وہ اب بھی رو رہی تھی. "ہمم... کشمالہ آپکو اپنے فیصلے پر کبھی دوبارہ پچھتاوا نہ ہو. ایسا فیصلہ کریں." فاتح نے ایک بار پھر کشمالہ کو اسکے فیصلے کے بارے میں سوچنے کے لیے کہا. "میں نے جو فیصلہ کر لیا سو کر لیا. میرا فیصلہ اٹل رہے گا." اسنے ایک سخت نگاہ ہاتھ کڑیوں میں جکڑی عالیہ پر ڈالی اور پھر فاتح کو جواب دیا. اسکی بات سن کر فاتح نے اپنا حکم جاری کیا. "ٹھیک ہے! کشمالہ نے تو اپنے ساتھ ہوئے ظلم کو معاف کر دیا ہے مگر تمھارے دوسرے آج تک کیے گئے جرائم کی سزا تو تمہیں کاٹنی ہی پڑے گی." فاتح کا فیصلہ سن کر عالیہ نے اپنی نظریں جھکا لیں. "ماجد اسکو واپس اسکے ٹھکانے میں ڈال آؤ!" اسنے کہا ساتھ ہی کشمالہ کو چلنے کا اشارہ کیا تو وہ اسکے پیچھے چل پڑی. فاتح اسکو گھر چھوڑ کر کسی کام کا کہہ کر واپس تھانے چلا آیا.
**********
اگلے دن اسکی فجر کے وقت آنکھ کھلی. "الله ہو اکبر الله ہو اکبر!" اذان کی آواز اسکی سماعت سے ٹکرائی. اذان کے ساتھ ہی اسکی الارم بھی بج اٹھی. اسنے ہاتھ بڑھا کر سائیڈ ٹیبل پر رکھی الارم کو خاموش کیا. چند لمحے وہ آنکھیں کھولے اپنے بستر پر لیٹی رہی. موازن کے پیچھے پیچھے وہ اذان کے الفاظ دوہراتی گئی. اذان کے اختتام پر اسنے اذان کے بعد کی دعا پڑھی اور اپنے بستر سے اٹھ گئی. کمرے سے باہر نکل کر اس نے واش روم کی جانب کا رخ کیا. وضو کر کے وہ واپس کمرے میں آئی اور مریم کو بیدار کیا. "مریم اٹھیں! نماز پڑھیں! اذان ہو گئی ہے!" کشمالہ نے مریم کو مخاطب کیا. "امم.. اٹھ رہی ہوں یار!" مریم نے اپنی ادھ کھلی آنکھوں سے کشمالہ کو دیکھ کر جواب دیا. کشمالہ نے نماز پڑھ کر الله کی بارگاہ میں اپنے ہاتھ پھیلایے. "یا اللہ! پلیز مجھ پر اپنا رحم فرما! میں اب اور تکالیف برداشت نہیں کر سکتی. ایک بار ضحی نے مجھے بتایا تھا کہ جو لوگ الله کی راہ میں اپنا سب کچھ قربان کر دیتے ہیں، الله ان کو اس سے بڑھ کر دیتا ہے جو انہوں نے کھویا ہوتا ہے. الله پاک آپ تو جانتے ہیں نا میں آپکے بھروسے ہی یہاں تک آئی ہوں. آپ میری حفاظت فرمائیے گا. الله پاک آپ تو اپنے بندے کا امتحان لینے کے لیے اسکو آزمائش میں ڈالتے ہیں. بس الله میں اور برداشت نہیں کر سکتی. الله مجھے معاف کر دے. مگر شاید میں اس امتحان ناکام ہو جاؤں گیں." اسکا چہرہ مکمل طور پر آنسوؤں سے بھیگ چکا تھا. اپنی دعا مکمل کر کے اسنے اپنے چہرے پے اپنے ہاتھ پھیرے پھر پیچھے مڑ کر مریم کو دیکھا. وہ بستر پے نہیں تھی. آج پہلی بار ایسا ہوا تھا کہ وہ پہلی بار اٹھانے پر اٹھ گئی ہو. کشمالہ نرمی سے مسکرائی اور جائے نماز سے اٹھ گئی.
**********
فاتح نے اسکو صبح ہی فون کر کے بتا دیا تھا کہ آج اسکے گھر جائیں گے. اور ایسا ہی ہوا. کشمالہ اور مریم دوپہر 3 بجے تیار ہو گئیں. فاتح کے گھر سے کشمالہ کے گھر کے درمیاں 20 منٹ کا فاصلہ تھا. مگر اتوار کا دن ہونے کی وجہ سے سڑکوں پر رش زیادہ تھا. ہر کوئی کہیں نا کہیں جانے کے لیے گھر سے نکلا ہوا تھا. 20 منٹ کا فاصلہ وہ لوگ آدھے گھنٹے میں طے کر کے کشمالہ کے گھر پر پوھنچے. دروازے پے دستک دی گئی. اندر سے ناب گھما کر دروازہ کھولا گیا تو سامنے دانیال کھڑا تھا. وہ پہلے کی طرح صحت مند نہیں تھا. ایک کمزور سے لڑکا فاتح کے سامنے کھڑا تھا. "اسلام علیکم! آپ دانیال صاحب ہیں؟" فاتح نے دروازےکے کھلتے ہی مقابل سے سوال کیا. "وعلیکم اسلام! جی میں ہی ہوں دانیال. آپ کون؟" دانیال نے پوچھا. "میں ایس-پی فاتح عالم." فاتح نے اپنا تعارف کروایا. "جی ایس-پی صاحب میں کس سلسلے میں آپکی مدد کر سکتا ہوں؟" دانیال نے ایک اور سوال پوچھا. "آجائیں!" فاتح نے پیچھے مڑ کر کسی کو مخاطب کیا. "آپ کس کو بولا رہے ہیں؟" دانیال کو تشویش ہوئی تو اس نے آگے بڑھ کر خود دیکھنا چاہا. "آپ انکو جانتے ہیں؟" فاتح نے اپنے پیچھے کھڑی ڈری، سہمی کشمالہ کی جانب اشارہ کیا. دانیال کچھ لمحے کے لیے سانس ہی نہیں لے سکا. "جج.. جی نہیں میں نہیں جانتا انکو!" دانیال نے اپنی نظریں کشمالہ پر گاڑیں رکھیں اور فاتح کو جواب دیا. "ارے ارے.. دانیال صاحب یہ تو غلط بات ہے. آپ اپنی ہی بہن کو نہیں پہچان رہے." فاتح کو دانیال سے ایسے ہی کسی جواب کی امید تھی جبھی اسکو ذرا حیرت نہ ہوئی. اسکے برعکس کشمالہ اور مریم کا حیرت کے مارے منہ ہی کھل گیا. "بھائی جان کیا ہو گیا آپکو؟! میں آپکی بہن! کشمالہ!" کشمالہ کی آنکھیں نم ہونا شروع ہو گئیں. اب وہ فاتح کے پیچھے سے نکل آئی تھی. اندر موجود رابعہ نے جب کشمالہ کی آواز سنی تو اپنے اوپر قابو نہ رکھ سکیں بس دروازے کی جانب دوڑی چلی آئیں. "دانیال کیا کشمالہ آئی ہے؟" کہہ کر انہوں نے دانیال کے کندھے پر ہاتھ رکھا. "اا.. امی.." کشمالہ نے ماں کو دیکھا تو اک دم انکی جانب لپکی. "کشمالہ! میری جان!" کہہ کر رابعہ نے اسکو اپنی باہوں میں بھر لیا اور اسکو گھر کے اندر لے گئیں. جبکہ دانیال وہاں کھڑا صرف زمین کو تکتا رہ گیا. "میرے خیال میں ہمیں اندر چل کر بات کر لینی چاہیے." کہہ کر فاتح عالم مریم کا ہاتھ پکڑ کر اندر بڑھ گیا. "ایس-پی صاحب! یہ یہاں کیوں آئی ہے؟!" کہہ کر وہ لاؤنج میں ایک صوفے پے بیٹھی کشمالہ کی جانب بڑھا. "کیوں آئی ہو تم یہاں؟! میں نے کہا تھا نا دوبارہ کبھی اپنی شکل مت دکھانا! تو کیوں آئی ہو!؟" دانیال نے اپنا دایاں ہاتھ اٹھاتے ہوئے کہا. ابھی وہ کشمالہ کو تھپڑ رسید کرنے ہی والا تھا کہ فاتح آگے بڑھا. "دانیال صاحب! کیا ہو گیا ہے آپکو؟! بہن ہے آپکی. اسی بات کا خیال کر لیں!" فاتح نے سخت لہجے میں کہا. کشمالہ کے برابر بیٹھیں رابعہ نے کشمالہ کو اپنے اندر چھپا لیا. مریم کشمالہ کے سامنے رکھے صوفے پر پرسکون بیٹھی تھی. وہ جانتی تھی کہ کشمالہ کو کوئی کچھ نہیں کہ سکتا کیونکہ فاتح وہاں موجود تھا. اور فاتح ہی اسکو وہاں لیا تھا اس وعدہ پر کہ اسکو کوئی کچھ بھی نہیں کہے گا. وہ صرف کشمالہ کا بھلا چاہتا تھا. "آپ بیچ میں مت آئیں ایس-پی صاحب! میں آپکی بہت عزت کرتا ہوں!" دانیال کے لہجے میں بھی غصّہ بھرا تھا. "اگر آپ میری عزت کرتے ہیں تو اس بہت عزت میں سے تھوڑی سی عزت اپنی بہن کو بھی دے دیں! ہٹیں پیچھے!" فاتح کا دل کرا ابھی اور اسی وقت دانیال کی سنگ دلی پر اسکو ایک گھونسا دے مارے. "منہ کیا دیکھ رہے ہیں.. ہٹیں پیچھے!" دانیال فاتح کی بات سن کر پتھر کا بت بن گیا تھا. اسکی حڈ دھرمی پر فاتح نے اسکو دھکہ دے کر پیچھے کیا. وہ چند قدم پیچھے کو گیا. "اگر آپ میری جگہ ہوتے اور آپکی بہن گھر واپس آئی ہوتی تو کیا آپ اسکو رکھ لیتے ایس-پی صاحب!" دانیال نے فاتح کی آنکھوں میں اپنی آنکھیں گاڑ کر اس سے سوال کیا. "میں کبھی اپنی بہن کو گھر سے نکالتا ہی نہیں!" اسنے بےحد سنجیدگی سے گھمبیر آواز میں کہا. دانیال ایک بار پھر فاتح کے جواب سے لاجواب ہو گیا. "آنٹی آپ کشمالہ اور مریم کو اندر لے کر جائیں. مجھے ان سے کچھ اکیلے میں بات کرنی ہے." فاتح نے حکم دیا تو رابعہ کشمالہ اور مریم کو لے کر اپنے کمرے میں آگئیں. "کیا بات کرنی ہے آپکو مجھ سے؟" کشمالہ کے جاتے ہی دانیال کا غصّہ کچھ ٹھنڈا پڑا تو اس نے آرام سے فاتح سے سوال کیا. "مجھے ایسا کیوں لگتا ہے کہ آپ کو ابھی تک کشمالہ کو گھر سے نکل دینے کی کوئی معقول وجہ ملی ہی نہیں ہے؟" فاتح کی بات سن کر دانیال آگے بڑھا اور فاتح کے ساتھ صوفے پے آبیٹھا. "اگر آپکی بات مان کر میں اسکو ابھی گھر میں رکھ بھی لوں تو بعد میں کیا کروں گا میں؟ 20 سال کی لڑکی کو گھر میں بیٹھا کر رکھوں گا کیا؟ آج لوگ اسکی عزت پر بات کرتے ہیں کل آکر اسکی شادی پر بات کریں گے. تب میں کیا کروں گا؟ آپ نہیں جانتے میں نے لوگوں کی کتنی باتیں سنی ہیں." اب کہ اسکی آواز سے پریشانی جھلک رہی تھی. "لوگوں کا کام ہے باتیں بنانا. اگر ہم لوگوں کی باتوں میں آکر ایک ایک کر کے گھر سے اپنے تمام پیاروں کو رخصت کر دیں گے تو پھر میرے خیال میں دنیا میں کوئی ایک بھی خوشحال گھرانہ نہیں بچے گا! اور جہاں تک بات ہے اسکی شادی کی.." فاتح کسی سوچ میں پڑ گیا. "نہیں ہوگا اس بات کا جواب آپکے پاس... کون کرے گا ایسی داغ دار لڑکی سے شادی؟" دانیال نے فاتح سے ایک اور سوال کر ڈالا جس پر فاتح نے اپنی جھکی ہوئی نظروں کو اٹھایا اور کہا. "اب آپ اسکو داغ دار لڑکی مت کہیں! اسکی ویڈیو میں سوشل میڈیا سے ڈیلیٹ کروا چکا ہوں!" اسنے انگلی اٹھا کر دانیال کو وارن کیا. "اب کیا فائدہ.. جو لوگ دیکھ چکے ہیں ان کا کیا کریں گے آپ؟ ہم بتائیں؟ اگر اسکی شادی کا مسلہ حال ہو جائے تو ہی باقی زندگی یہ اور ہم سکھ سے گزار سکتے ہیں. اور شادی اس سے کوئی کرے گا نہیں!" دانیال نے خود ہی خود فیصلہ بھی کر لیا. "ایسا نہیں ہے! میری نظر میں اسکے لیے ایک رشتہ ہے..." فاتح نے کچھ سوچتے ہوئے کہا.
**********
کشمالہ نے رابعہ کو اور رابعہ نے کشمالہ کو اپنی اپنی روداد سنا ڈالی. ان دونوں کے لیے ایک دوسرے سے دور رہنا بےپناہ مشکل تھا. کشمالہ بری مشکل سے چپ ہوئی تھی. ایک لمحے کے لیے بھی اسکا دل نہیں چاہا کہ وہ اپنی ماں سے الگ ہو. مریم بس کشمالہ کے چہرے پے موجود خوشی کو دیکھ دیکھ کر اندر ہی اندر شکر ادا کرتی رہی. "الله تیرا شکر یہ ہمیں ملیں. اگر کسی اور مل جاتیں تو نجانے آج کہاں ہوتیں." اسنے کشمالہ کو دیکھ کر سوچا. ابھی وہ مزید کچھ سوچنے ہی والی کہ دروازے پے دستک ہوئی. مریم نے اٹھ کر دروازہ کھولا تو سامنے فاتح کھڑا تھا. اسنے مریم کے کان کچھ کہا اور واپس پلٹ آگیا. "کشمالہ، آنٹی بھائی آپ لوگوں کو باہر بلا رہے ہیں." پہلے تو کشمالہ نے انکار کر دیا. وہ دانیال سے بہت ڈر گئی تھی. مگر جب رابعہ نے چلنے کے لیے زور دیا تو وہ مان گئی. وہ تینوں ساتھ ساتھ ہی باہر آئیں تھیں. مگر وہاں نہ ہی دانیال تھا نہ ہی فاتح. "کہاں گئے یہ لوگ؟" مریم نے کہا. "اگر تم چاہتی ہو کہ میں تمہیں دوبارہ یہاں رہنے کی اجازت دے دوں تو میری اس شرط کو شرافت سے مان لو.." دانیال نے اندر داخل ہو کر بات کا آغاز کیا. وہ اور فاتح ساتھ ساتھ ہی داخل ہوئے تھے. "کک.. کیسی شرط بھائی جان؟" کشمالہ نے سر اٹھا کر اس سے پوچھا. "تمہارا ابھی اور اسی وقت نکاح ہو گا!" اسنے اپنا فیصلہ سنایا. "نن.. نکاح!؟ بھائی جان آپ کیسے کسی ایرے غیرے کو میرا ہاتھ تھما سکتے ہیں؟!" اسکے ہوش اڑ چکے تھے. وہ صوفے سے اتر کر کھڑی ہو گئی. "شرم تو تمہیں آتی نہیں.. اپنے سامنے کھڑے ایس-پی فاتح عالم کو تم ایرا غیرا کہہ رہی ہو!" دانیال کو ایک بار پھر غصّہ آگیا. دانیال کی بات سن کشمالہ واپس صوفے پے بیٹھتی چلی گئی. اسکے ساتھ زندگی کس کس طرح کا مذاق کر رہی تھی. یقین کرنا اسکے لیے مشکل نہیں ناممکن ہو رہا تھا. "بھائی!؟" مریم اسکے علاوہ اور کچھ نہ کہہ سکی. رابعہ الگ دانیال کو حیرت بھری نظروں سے دیکھ رہیں تھیں. "بھائی بتائیں نا یہ کیا کہہ رہے ہیں؟!" مریم نے فاتح کے دائیں بازو کو ہلاتے ہوئے ایک بار پھر پوچھا. "مریم.. دانیال صاحب صحیح کہہ رہے ہیں.." فاتح نے کہہ کر اپنی نظریں جھکا لیں. "دانیال بیٹا یہ تم کیا کہہ رہے ہو؟ ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟" رابعہ نے آگے بڑھ کر دانیال سے سوال کیا. "امی.. اس میں ناممکن تو کوئی بات نہیں ہے... بڑا بھائی ہوں نا اسکا تو مجھے ہی کروانی تھی اسکی شادی.. لے جائیں اسکو! بنائیں اپنی لاڈلی کو دلہن!" دانیال نے سخت لہجے میں کہا. "مگر بھائی.." کہہ کر مریم نے پیچھے مڑ کے کشمالہ کو دیکھا. "نہیں!!! ایسا نہیں ہو سکتا! بھائی جان پلیز مجھ پر یہ ظلم نہ کریں!" کشمالہ چند قدم آگے بڑھی. "جب تک تمہارا ان سے نکاح نہیں ہوجاتا.. تم مجھے بھائی جان مت کہنا!" کہہ کر دانیال جانے کے لیے پلٹا مگر اسی لمحے واپس مڑا. "میں اور ایس-پی صاحب.. قاضی صاحب کو لینے جا رہے ہیں." اسنے کہا تو فاتح اسکے نکلنے سے پہلے ہی باہر نکل گیا. کشمالہ اپنی جگہ کھڑی کی کھڑی رہ گئی. "کشمالہ بیٹا!" رابعہ اسکے پاس آئیں اور اسکو مخاطب کیا. ماں کی آواز اسکے کانوں میں پڑی تو اسنے کہا. "امی..! یہ کیسے ہو سکتا ہے؟... مریم آپ ہی بتا دیں.. آپکے بھائی نے ایسا کیوں کیا؟!" اسکی آنکھوں سے آنسو زاروقطار ببہہ رہے تھے. "پتا نہیں کشمالہ. مجھے تو خود کچھ سمجھ نہیں آرہا." مریم کی بھی سمجھ میں کچھ نہیں آیا.
**********
مین گیٹ پر دستک ہوئی تو مریم نے جاکر دروازہ کھولا. سلام کر کے دانیال اور فاتح آگے بڑھ گئے. انکے ساتھ ٣ اور لوگ بھی تھے جن کو دیکھ کر مریم نے اپنے دوپٹے سے چہرہ چھپا لیا. ان میں سے ٢ لوگوں کو تو وہ جانتی تھی. وہ فاتح کے انڈر کام کرتے تھے. تیسرا شخص سر پے سفید ٹوپی لگائے ہاتھ میں کچھ کاغذات لیے اندر جا رہا تھا. مریم دوڑتی ہوئی واپس کمرے میں آئی اور کشمالہ اور رابعہ کو سب کچھ بتایا جو اسنے دیکھا تھا. "امی! آپ نے تو کہا تھا کہ بھائی جان غصّے میں کہہ گئے ہیں. اصل میں ایسا کچھ نہیں ہوگا... مگر امی بھائی جان تو سچ مچ قاضی صاحب کو لے آۓ ہیں!" کشمالہ کا چہرہ مکمل طور پر آنسؤں سے بھیگ چکا تھا. "مم.. میں بات کرتی ہوں دانیال سے." کہہ کر رابعہ اٹھیں اور کمرے سے باہر نکلیں. دانیال بھی انہی کی جانب چلا آرہا تھا. "جی؟ ہو گئی وہ تیار؟" اسنے پوچھا. "کیا مطلب ہے تمہارا؟ تم پاگل تو نہیں ہو گئے ہو؟ ایسے کہاں شادیاں ہوتیں ہیں؟" ان کی آواز میں غصّہ تھا مگر آواز ہلکی ہی تھی. "تو ایسی غلطیاں بھی کہاں ہوتیں ہیں؟ جو آپکی بیٹی نے کیا ہے نہ اسکے لیے بہت چوٹی سزا ہے یہ. بلکہ سزا بھی کہاں ہے؟ اس قدر اچھے اور ہینڈسم لڑکے سے اسکو بیا رہا ہوں! ناشکری ہے آپکی بیٹی! آخری بار کہہ رہا ہوں. 15 منٹ میں اسکو تیار کر کے باہر لے آئیں. قاضی صاحب ہمارے نوکر نہیں ہیں!" اپنی بات مکمل کر کے وہ واپس جانے کے لیے پلٹ گیا. رابعہ بوجھل قدموں سے اندر آئیں اور کشمالہ جو انکو امید بھری نگاہوں سے دیکھ رہی تھی کی تمام امیدوں پر پانی پھیر دیا. "مریم بیٹا.. اسکو تیار کر دو.. میں اسکے لیے وہ جوڑا لاتی ہوں جو اسکی شادی کے لیے رکھا تھا." کہہ کر وہ واپس کمرے سے نکل گئیں. کشمالہ پھٹی پھٹی نگاہوں سے انکو دیکھتی رہ گئی. "کشمالہ میں.. میں کیا کروں؟" مریم کی آواز سے پریشانی جھلک رہی تھی. کچھ دیر وہ خاموش رہی پھر کہا. "وہی کرو جو امی کہہ کر گئیں ہیں..." بلاآخر کشمالہ نے بھی گھٹنے ٹیک دئیے. اسکے علاوہ اسکے پاس اور کوئی چارا نہیں تھا. کچھ دیر بعد وہ لال جوڑے پہنے اور وہ زیورات جو رابعہ نے اسکی شادی کے لیے رکھے تھے پہنے کمرے سے باہر آئی. وہ بہت خوبصورت لگ رہی تھی مگر اسکا دل بار بار الله سے سوال کر رہا تھا کہ الله یہ کیسی آزمائش ہے.
**********
کمرے کو ایک چادر کے ذریعے دو حصّوں میں تقسیم کر دیا گیا تھا. ایک حصّے میں فاتح عالم، قاضی صاحب اور گواہان موجود تھے. دانیال دوسرے حصّے میں موجود تھا. رابعہ اور مریم کشمالہ کو کمرے میں لائیں اور صوفے پے بیٹھا دیا. دانیال نے کشمالہ کو دیکھا تو آگے بڑھ کر اسکے سر پر ہاتھ رکھا. اسکو ایک لمس محسوس ہوا. یہی وہ لمس تھا جس کے لیے کافی وقت سے ترس رہی تھی. نظریں اٹھا کر اسنے دانیال کو دیکھا تو وہ ہلکہ سا مسکرایا. اسکی مسکراہٹ ہی کشمالہ کے لیے کل اثاثہ تھی. اب اسکا دل مطمئن ہو چکا تھا.
کشمالہ کا نکاح ہو گیا. اب وہ صرف کشمالہ نہیں تھی بلکہ کشمالہ فاتح بن گئی تھی. وہ اس فیصلے سے خوش تو نہیں تھی مگر ہاں مطمئن ضرور ہو گئی تھی. وہ اپنے کمرے میں بیٹھی اپنے ماضی کے بارے میں سوچ رہی تھی. کتنی مشکلات، کتنی تکالیف اور کتنی مصیبتوں کا سامنا کرنے کے بعد اب وہ یہاں موجود تھی. اسے ضحی کی ایک بات یاد آئی. "کشمالہ الله اگر انسان کو درد اور اذیتوں سے گزرتا ہے نا تو پھر اس سے بڑھ کر اسکو خوشیاں بھی دیتا ہے. اگر تم کبھی کسی مشکل میں پھنس جاؤ تو یہ بات یاد رکھنا کہ تمہاری زندگی میں بہت جلد کوئی خوشی بھی آنے والی ہے. بس تمہیں وہ خوشی محسوس کرنی ہوگی. کبھی الله سے شکوہ مت کرنا." کشمالہ کی آنکھیں ایک بار پھر نم ہو گئیں. کچھ دیر بعد مریم کی آواز اسکی سماعت سے ٹکرائی. "کشمالہ! بھائی آپکو بولا رہے ہیں!" وہ مریم کی آواز پر اٹھی اور باہر نکل آئی. "جی؟ کیا؟ میں نے بلایا ہے آپکو. کس کو ڈھونڈ رہیں ہیں؟" سامنے فاتح کھڑا تھا. اسکو ادھر ادھر دیکھتے ہوئے پایا تو اس سے پوچھا. "نہیں.. وہ.. میں.." ہمیشہ کی طرح وہ آج بھی گڑبڑا گئی. "آپکو مجھ سے ڈر لگتا ہے؟" اسنے کشمالہ کو سوالیہ نظروں سے دیکھا. "اتنے ڈراؤنے ہیں.. اب بندے کو ڈر تو لگے گا ہی نا." اسنے سوچا. کہنے کی اسکی حمّت نہ ہوئی. "نہیں..آا.. ایسا تو نہیں ہے.." اسنے اٹک اٹک کر جواب دیا. "اچھا.. جبھی آپ دل میں مجھے ایک ڈراؤنا انسان کہہ رہی ہیں؟ ہمم؟؟؟" اسکی بات سے وہ مزید گڑبڑا گئی. "نہیں.. جی.. وہ.." اسکے پاس فاتح کو دینے کے لیے کوئی جواب نہ تھا. "ایک مشورہ دوں آپکو... آپ جھوٹ مت بولا کریں.. کیونکہ آپکو جھوٹ بولنا نہیں آتا..." اس نے کہا. "آپ سے ایک بات پوچھوں؟" کشمالہ نے حمت کرکے اس سے کچھ پوچھنا چاہا. "جی.." اسنے مختصر سا جواب دیا. "عالیہ کا کیا ہو گا؟" اسنے پوچھا. "آپ کو اب بھی اسکی فکر ہے...؟ خیر... اسکو عمر قید ہوئی ہے. مگر مجھے لگتا ہے اسکے جرائم کی یہ کافی چوٹی سزا ہے." اسنے کچھ سوچتے ہوئے کہا. "الله یہ چوٹی سزا ہے... آپ بہت ظالم ہیں!" اسنے کہا. "وہ تو میں ہوں!" وہ کہہ کر ہنستا ہوا آگے بڑھ گیا.
**********
وہ لاؤنج میں مریم اور رابعہ کے ساتھ بیٹھی تھی کچھ باتیں کر رہی تھی کہ دانیال اور فاتح اندر آۓ. "چلیں..؟" فاتح نے کشمالہ اور مریم کو مخاطب کیا. "کہاں..؟" کشمالہ نے پوچھا تو رابعہ مسکرائیں اور بولیں. "کشمالہ بیٹا اب تمہارا گھر تو فاتح کا گھر ہے نا؟ اپنے گھر نہیں جاؤں گی؟" "امی.. تب تک نہیں جب تک بھائی جان مجھے معاف نہیں کر دیتے." اسنے ایک شرط اپنی ماں کے آگے رکھی. "میں تمہیں معاف کر چکا ہوں." دانیال نے کہا اور اسکی جانب بڑھا. کشمالہ نے نظریں اٹھا کر بھائی کو دیکھا وہاں محبت تھی. وہی محبت جو ہمیشہ دانیال کی نظروں میں اسکے لیے ہو کرتی تھی. دانیال نے اسکے سر پر ہاتھ رکھا اور کہا. "اب تو میں اپنی باؤلی کو خود رخصت کروں گا." دانیال نے مسکراتے ہوئے کہا. مگر کشمالہ نے خفت سے بھائی کو دیکھا. پھر ہلکی آواز میں کہا. "بھائی جان یار کیا ہے آپکو.." اسکے ریکشن پر دانیال نے زور دار قہقہ لگایا تو سب ہنسنے لگے. ماحول بہت خوشگوار ہو گیا تھا. کشمالہ نے دل ہی دل میں الله کا شکر ادا کیا. "الحمدللہ! الله پاک آپ بہت اچھے ہیں!" رابعہ نے اپنی بیٹی کو دعا دی. "الله کشمالہ کو اسکے شوہر کے ساتھ ہمیشہ خوش رکھیے گا آمین!" دانیال نے کشمالہ کا دایاں ہاتھ تھاما اور بایاں ہاتھ مریم نے. رابعہ اور دانیال نے دعاؤں کے ساتھ اسکو رخصت کیا. وہاں موجود تمام لوگوں میں سب سے زیادہ خوش مریم تھی کیونکہ اسکی دل کی خواہش پوری ہو گئی تھی. اور مطمئن کشمالہ. اسکی زندگی کا ایک نیا باب کھل گیا تھا. وہ فاتح کے ساتھ ایک خوشحال زندگی کا خواب اپنی آنکھوں میں سجائے باہر نکلی.
**********
ختم شدہ

Wah yaar kya ending hai yaar ... Yar tabahi novel tha....zoha mari tou bht dukh huwa laikn happy ending per