top of page
Search

Dosti Or Eeman Part 1

  • Armeen Aabroo
  • Feb 19, 2021
  • 20 min read

Dosti Or Eeman by Armeen Aabroo Part 1. This novel is based upon a girl who has to choose her path by acting upon her friends’ advice. Either right path or wrong. In this novel evils of our society have been highlighted. And how the girl is going to find her path by facing different and difficult problems.


About Writer


Armeen Aabroo is an emerging new writer and it’s her new novel that is being written for our platform. She has written many famous novels for her readers .These novels will surely grab your attention. Readers like to read her novels because of her unique writing style.

دوستی اور ایمان

" کشمالہ " دور سے دوڑتی ہوئی آتی عالیہ نے اسے آواز دی. کشمالہ نے عالیہ کی آواز پر سر اٹھا کر دیکھا. تیز تیز چلتا قلم رکا اور اس نے عالیہ سے سوال کیا." ہاں، کہو کیا ہوا؟ اور یہ تم اتنی جلدی میں کیوں ہو؟ " " یار! سوال جواب چھوڑو. وہاں ہال میں ایک الگ ہی تماشہ لگا ہے. آؤ چلو! " عالیہ نے کشمالہ کا ہاتھ پکڑ کر اسے کرسی سے اٹھانا چاہا. " نہیں یار، پڑھنے دو مجھے! یہاں یونی میں تو ہر وقت ہی کوئی نہ کوئی تماشہ لگا ہوتا ہے. " کشمالہ نے اپنا ہاتھ چھڑایا. " او پاگل لڑکی! تم نے ہی تو مجھے ہمیشہ سے کہا ہے کہ تمہیں ڈرامہ یا ٹیبلو وغیرہ کرنے کا شوق ہے. " عالیہ نے برابر والی کرسی پر براجمان ہوتے ہوئے کہا. " ہاں، تو......اس بات کا ہال کے تماشے سے کیا تعلق ہے؟ " کشمالہ نے عالیہ کی جانب متوجہ ہوتے ہوئے کہا. " یار دیکھو باہرجو تماشہ لگا ہے وہ اسی کی وجہ سے لگا ہے. باہر، بورڈ پے ایک نوٹس لگا ہے جس پر لکھا ہے " ڈرامہ کمپیٹیشن " جو جو افراد دلچسپی رکھتے ہیں، سر اشرف کو اپنا نام لکھوا دیں." عالیہ نے کشمالہ کو بتایا. " ہیں! واقعی! کب لگا یہ نوٹس؟ میں ابھی تو ہال سے ہو کرآئی ہوں." کشمالہ نے عالیہ کو سوالیہ نظروں سے دیکھا. " اف الله! اس ابھی کو بھی ایک گھنٹہ ہو چکا ہے. اچھا، یہ کتابیں چھوڑو. چلو میرے ساتھ. ایک گھنٹے سے لائبریری میں گھسی پڑی ہو." عالیہ نے کھڑے ہو کر کشمالہ کا ہاتھ پکڑا اور اسے تقریباً گھسیٹتے ہوئے لائبریری سے باہر لے آئی .

********************

ہال میں طلباوطالبات اور اساتذہ کا ایک ہجوم موجود تھا. عالیہ نے پہلے کشمالہ کو نوٹس دکھایا اور پھر سر اشرف کے کمرے میں لے آئی. سر اشرف اپنی کرسی پر براجمان تھے اور ان کے گرد طلباوطالبات موجود تھے. وہ اگلے ماہ ہونے والے ڈرامہ کمپیٹیشن کے بڑے میں تفصیلات دے رہے تھے. عالیہ اور کشمالہ بھی ان کی بات بہت توجہ سے سننے لگیں." یار..... میں یہ نہیں کر سکتی " کشمالہ نے بے چارگی سے عالیہ کی جانب دیکھا. " کیوں؟ کیا ہو گیا ہے یار ؟ فضول باتیں نہ کرو." عالیہ نے پریشانی سے کشمالہ کو دیکھا. " یار! تم نے اس کا عنوان دیکھا؟ کیسا عجیب موضوع ہے. میں تو نہیں کرسکتی! " کشمالہ نے سر نفی میں ہلایا. " کیا عجیب ہے اس میں؟" " نہیں نہیں! انارکلی! یہ کیسا عنوان ہوا بھلا؟ " "پاگل لڑکی تم خوبصورت ہو، ذہین ہو اور پھر تمہیں خود بھی تو شوق ہے نا! کیا برائی ہے اس میں؟ " عالیہ نے جھنجلا کر کشمالہ سے کہا. " یار! امی کبھی اجازت نہیں دیں گیں." اس بار کشمالہ کے لہجے سے پریشانی اور افسردگی صاف ظاہر تھی. " تو یار امی کو بتا ہی کون رہا ہے؟ کشمالہ نے اک دم عالیہ کو عجیب کی نظروں سے دیکھا. " کیا مطلب تم چاہتی ہو میں امی کو کچھ نہ بتاؤں؟ " "ہاں" عالیہ نے ترکی با ترکی جواب دیا. اس کے لہجے میں عجیب سی پراسراریت تھی. " کیا پاگل ہو گئی ہو؟ آج تک میں نے امی سے کوئی کام یا کوئی بات نہیں چھپائی." " تو اب چھپا لو نا. دیکھو تم کرنا چاہتی ہو نا یہ ڈرامہ؟" " ہاں" کشمالہ نے سر اثبات میں ہلایا. " تو بس پھر! مسلہ ہی کوئی نہیں ہے. یار سنو!" عالیہ نے اس کا چہرہ اپنی طرف گھمایا. اور دوبارہ گویا ہوئی. " کچھ پانے کے لئے کچھ کھونا بھی پڑتا ہے." یہ عالیہ کی طرف سے کیا گیا آخری وار تھا جو سیدھا کشمالہ کے دل پر لگا. اور وہ یہ ڈرامہ کرنے کے لئے راضی ہو گئی.

********************

یونیورسٹی سے آنے کے بعد سے کشمالہ پر اضطراب کی سی کیفیت طاری تھی. کہیں تو کچھ غلط تھا.

********************

کھٹ کھٹ !!! دروازے پر دستک ہوئی تو کشمالہ نے چونک کر دروازے کی جانب دیکھا. "آجائیں" کہ کر واپس لکھنے میں مشغول ہو گئی. دروازے کا ناب گھوما اور پھر دروازہ اندر کی جانب کھلتا چلا گیا. کمرے کی دہلیز پر رابعہ موجود تھیں. "کشمالہ ! بیٹا کیا ہوا ہے ؟ جب سے گھر آئی ہو اسی طرح کمرے میں بند ہو ". رابعہ کی آواز سے پریشانی صاف ظاہر تھی. "کچھ نہیں امی بس ذرا سر میں درد ہے". "لاؤ میں دبا دیتی ہوں". پڑھائی کو اتنا سر پر سوار کرو گی تو یہ ہی ہوگا بیٹا ". رابعہ نے بے انتہا محبت سے کشمالہ کو مخاطب کیا. اور اس کے پاس بیڈ پر آ کر بیٹھ گئیں . "نہیں امی میں اب ٹھیک ہوں". "ارے ایسے کیسے ٹھیک ہوں؟ آؤ ". ماں کے بلانے کے باوجود وہ اپنی جگہ پر جمی رہی. "امی آپ کو کیا بتاؤں؟ جس بیٹی سے آپ اتنا پیار کرتی ہیں وہ آپ سے اتنی بڑی بات چھپا رہی ہے". ایک دم سے کشمالہ کے دل میں خیال آیا اور ماں سے نظریں چرا گئی. "کشمالہ میری جان اگر کوئی بات ہے تو مجھے بتاؤ". "نہیں امی "، کہ کر اچھل کے رابعہ کے پاس آئی اور ان کے گلے لگ گئی. آنسو زارو قطار اس کی آنکھوں سے نکلنے لگے. "ارے ارے کشمالہ بیٹا کیا ہوا ؟" کشمالہ کی یہ حرکت انہیں مزید پریشان کر رہی تھی. "کچھ نہیں ہوا امی بس ایک بات ہمیشہ یاد رکھئے گا کہ آپ کی کشمالہ آپ سے بہت پیار کرتی ہے". ماتھے پر پڑی شکنیں ایک دم مٹ گئیں اور ہلکی سی مسکراہٹ رابعہ کے چہرے کو چھو گئی.

********************

اگلے روز جس وقت سر اشرف نے تمام ڈرامے کے امیدواران کو بلایا تھا، سب وہاں پوھنچ گئے. ان امیدواران میں عالیہ اور کشمالہ بھی موجود تھیں. آج سر اشرف اور مس شائستہ نے  آڈیشن   لینا تھا. "کشمالہ!" مس شائستہ کی آواز پر کشمالہ نے عالیہ کی جانب دیکھا. عالیہ نے اس کا ہاتھ تھاما تو وہ پسینے سے بھیگا ہوا تھا. " کشمالہ چلو یار تم یہ کر سکتی ہو. تم اتنا نروس کیوں ہو رہی ہو ؟ " " عالیہ اگر امی......" "کشمالہ پلیز! کیا امی امی ؟ بس کردو! صرف یہ سوچو کچھ پانے کے لیا کچھ کھونا پڑتا ہے." عالیہ اب کے بری طرح جھنجلا گئی.  "اوکے" کشمالہ نے صرف اتنا کہا اور اندر چلی گئی.
********************
"Yessss دیکھا کہا تھا نا میں نے. ہو گیا یار  مارو تالی! " عالیہ نے خوشی سے ایک ہاتھ کشمالہ کی جانب بڑھایا. کشمالہ صرف عالیہ کو  دیکھ کر رہ گئی. عالیہ کا ہاتھ فضا میں ہی رہ گیا." تم اتنا خوش کیوں ہو؟" کشمالہ نے الٹا اس سے سوال کیا. " لو بھائی! میری دوست کو لیڈ رول مل گیا اور میں خوش بھی نہ ہوں. بھئی میں تو بہت خوش ہوں لیکن تمھارے منہ پے کیوں بارہ بجے ہوۓ ہیں؟؟ " عالیہ نے کشمالہ سے پوچھا. " پتہ نہیں یار" وہ صرف اتنا ہی کہ سکی. " یار تم خوش قسمت ہو! ہیروئن کا رول ملا ہے تمہیں." عالیہ نے جیسے ایک بار پھر اسے یاد دلانا چاہا. " پتہ نہیں خوش قسمت ہوں یا بد قسمت" وہ صرف سوچ کر رہ گئی." ہوں جانتی ہوں" کشمالہ نے کہا." آؤ کینٹین چلیں" عالیہ اسے لیکر ہال سے نکل گئی.
********************
ریہرسل روز کی بنیاد پے جاری تھی. کشمالہ کی اداکاری دن با دن اچھے سے اچھی ہوتی جا رہی تھی. بلاآخر وو دن آ ہی گیا جب کشمالہ کو اپنی اداکاری کے جوہر ٥٠٠ سے ١٠٠٠ افراد کے سامنے دکھانا تھا.
********************
"عالیہ مجھ سے نہیں ہو گا!" کشمالہ کی آواز سے پریشانی صاف ظاہر تھی. " پاگل ہو گئی ہو تم. فضول باتیں نہ سوچو. اف الله! کتنی پیاری لگ رہی ہے یہ." عالیہ کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا. آخر کار  کشمالہ اسٹیج پر آئی. انار کلی کے جوڑے میں وہ بہت خوبصورت لگ رہی تھی. اب کے اسنے اپنے جملے بولنا شروع کئے اور بولتی چلی گئی. یہ پہلی بار تھا کہ اس کے لہجے میں نہ کوئی پریشانی تھی اور نہ ہی کوئی ڈر. وہ انار کلی کے کردار میں مکمل طور پر ڈوب چکی تھی. تماشائیوں میں تیسری رو میں چوھتی کرسی پر براجمان شخص نے اپنا موبائل نکالا اور ریکارڈنگ شروع کر دی. انار کلی کے دکھاۓ گئے تمام جوہر اب اس شخص کے موبائل میں قید ہو گئے تھے. تالیوں کی گونج فضا میں بلند ہوئی اور اسی لمحے ریکارڈنگ اوف کے بٹن پر ایک کلک ہوا. کشمالہ فاتحانہ مسکراہٹ کے ساتھ اسٹیج سے نیچے آئی.
********************
تین سال قبل
"یار اتنی دیر کردی تم نے آج بھی لنچ لانے میں. کیا کینٹین پر آج بھی رش تھا؟" عالیہ نے کشمالہ سے پوچھا." ہاں یار" کہ کر کشمالہ کرسی پر بیٹھ گئی. "ویسے یار کالج کو دوبارہ کھلے ایک ہفتہ ہو گیا ہے اور ضحی میڈم کا کچھ اتا پتا ہی نہیں. کہاں غایب ہے یہ لڑکی؟! کیا ٢ ماہ کی گرمیوں کی چھٹیاں کافی نہیں تھیں اس کے لئے؟" عالیہ نے طنزیہ لہجے میں  میڈم پر زور دے کر کہا. " پتہ نہیں یار مصروف ہو گی کہیں. ورنہ بلاوجہ تو چھٹی کرتی نہیں ہے وہ." کشمالہ کے لہجے میں ہمدردی تھی. " ہاں بلا وجہ، جو بھی ہو پر تم سے زیادہ حاضری نہیں ہو گی اس کی اور تم سے زیادہ پڑھائی میں اچھی بھی نہیں ہے وہ." عالیہ نے کشمالہ کو سراہا. "یہ تم ہر وقت میری تعریفیں کیوں کرتی رہتی ہو؟ "کشمالہ نے عالیہ کیا جانب ایک سوال اچھالا. " لو بھئی برائی کرو تب بھی مسلہء اور تعریف کرو تب بھی." عالیہ نے شکوہ کیا. کشمالہ زیر لب مسکرائی اور سر جھٹک کر لنچ کرنے لگی.
********************
مزید ٢ ماہ قبل
"ضحی بیٹا جلدی سے تیار ہو جاؤ." رافعہ کی  آواز ضحی کی سماعت سے ٹکرائی. " جی امی بس ہو ہی گئی." ضحی نے اپنی ماں کو جواب دیا. " دیکھیں صحیح لگ رہی ہوں نہ میں؟" ضحی نے رافعہ سے پوچھا. "ہاں بیٹا پر تم کوئی اسکارف ہی لے لو سر پر." رافعہ نے ضحی کو جواب دیا. " کیا ہے ماما آپ کب سے اتنے پرانے خیالات کی ملک ہو گئیں؟ میری اتنی پیاری میکسی کی خوبصورتی مانگ پر جاۓ گی اگر میں نے اسکارف پہنا." ضحی کے لہجے میں بے پناہ بے زاری تھی. "مگر بیٹا........."  " ماما پلیز ویسے بھی میں نے یہ دوپٹہ پہنا تو ہے.." ماں کی بات کاٹ کر فضا میں ایک پتلی سی پتی لہرائی.(غالباً یہ اس کی میکسی کا دوپٹہ تھا)"اچھا بھئی چلو! دیر ہو رہی ہے. تمھارے ماموں کی دو بار کالز آ چکی ہیں کہ سگے بھتیجے کا نکاح ہے. کہاں رہ گئی ہو؟" " چلیں! بابا کہاں ہیں؟" " نیچے گاڑی میں ہی ہیں." "سنو، تم ذرا میری اٹھا دو." رافعہ نے سامنے صوفے پر پڑی چادر کی جانب اشارہ کیا.
********************
"بابا اور کتنی دور ہے یہ شادی ہال؟" ضحی نے اپنے والد کو مخاطب کیا." بس بیٹا آ ہی گیا. اتنی بےصبری کیوں ہو رہی ہیں آپ؟" افتخار صاحب نے ضحی کو جواب دیا. " بابا آپ جانتے ہیں مجھے زیادہ انتظار کرنا پسند نہیں ہے. اتنی محنت سے تیار ہوئی ہوں. سارے کپڑے خراب ہو رہے ہیں. اگر میرا حلیاء  ہی خراب ہو گا تو لوگ کیا کہیں گے." ضحی نے اپنے والد سے شکوہ کیا. " لو بھئی پہنچ گئے." کہ کر افتخار صاحب نے گاڑی روکی. ٹک ٹک ٹک کرتی ہیل پہنے ضحی پر اعتماد طریقے سے چلتی ہال میں داخل ہوئی. لوگوں کی توجہ کا مرکز بنی ضحی بے انتہا خوب صورت لگ رہی تھی. بغیر کسی نظر کو اپنی خاطر میں لاۓ وہ چلتی ہوئی ٹیبل کی جانب آئی اور ایک کرسی گھسیٹ کر اس پر بیٹھ گئی. ماموں کے خاندان سے ویسے ہی اس کی نہیں بنتی تھی. چمکتی ہوئی  روشنیاں، خوش گپپیوں کی آوازیں اور مسلسل ادھر ادھر ٹہلتے ہوۓ لوگوں کو دیکھ کر اب وہ بور ہو گئی تھی. اسی طرح اپنی نظروں کو گھماتے ہوئے وہ تقریبا پورے ہال کا نظارہ کر چکی تھی. مگر جس شخص پر جا کر  اسکی نظریں روکیں وہ ایک دبلی پتلی تقریباً 17 سالہ لڑکی تھی جو اپنے چہرے کے گرد اسکارف لپیٹے اسی اسکارف سے اپنا چہرہ چھپائے سامنے ایک کرسی پر براجمان تھی.ضحی کی نظریں جیسے اس لڑکی پر جم سی گئیں. "ضحی!" رافعہ کی آواز پرضحی نے مڑ کر ماں کو دیکھا." جی ماما " ضحی کا دماغ ابھی تک اسی لڑکی کے بارے میں سوچ رہا تھا." ضحی بیٹا! پروین آنٹی سے ملو! یہ صوںیہ  کی ماما ہیں." رافعہ نے ایک خاتون کی طرف اشارہ کیا." صونیہ.......اوہ اچھا.......اسلام علیکم آنٹی کیسی ہیں آپ؟ میں نے تو بلکل پہچانا ہی نہیں آپ کو. اتنی چینج    ہو گئیں ہیں آپ."  وعلیکم اسلام میں بلکل ٹھیک ہوں تم کیسی ہو بیٹا؟" خاتون نے جیسےضحی کی دوسری بات پر توجہ ہی نہ دی." جی میں بھی بلکل ٹھیک. ....... یہ صونیہ کہاں ہے؟" ضحی نے صونیہ کے بارے میں خاتون سے دریافت کیا." ہاہاہا! بیٹا جس کو اتنے غور سے دیکھ رہی ہو وہ صونیہ ہی تو ہے." خاتون نے ہنستے ہوئے ضحی کے سوال کا جواب دیا." جی؟؟؟......اوہ اچھا!!" ضحی ایک دم سٹپٹا گئی. اس کے لئے یقین کرنا مشکل تھا کہ وہ صونیہ جو لباس کے معاملے میں جینز اور ٹی-شرٹ کے علاوہ کچھ سوچتی نہ تھی وہ آج پردہ کرتی ہے! اٹھ کر صونیہ کے پاس آئی. ضحی کی حالت اب اس بچے جیسی تھی جس سے اسکا کھلونا چھین لیا گیا ہو. کبھی وہ صونیہ کے برقے کی طرف دیکھتی تو کبھی اسکی شکل کو بغور تکنا شروع کردیتی. صونیہ اسکی نظروں کو سمجھ چکی تھی.اور اب بھرپور  انداز میں مسکرا رہی تھی. ضحی کچھ دیر کے لئے بلکل گم سم ہو گئی یہاں تک کے صونیہ نے اسکو آواز دی." ضحی! " وہ صونیہ کی آواز پر سوچوں سے باہر آئی." کیا ہو گیا کن سوچوں میں گم ہو؟" صونیہ نے ضحی سے پوچھا. "یار مجھے یقین نہیں آ رہا! " ضحی اب بھی حیرت زدہ تھی." کیوں بھئی؟ اس میں ایسی کونسی بات ہے؟" " یار تم اور یہ کالا گرم برقع اور اس پر اتنا موٹا  اسکارف! کیوں؟ بلکے کیسے؟" ضحی کو تجسّس ہوا." کچھ خاص نہیں یار! بس الله نے مجھے سیدھا راستہ دکھایا ہے. اور اس کام کا وسیلہ ڈاکٹر عبدالرحمان شریف کو بنایا ہے." صونیہ نے وضاحت دینا شروع کی." ڈاکٹر عبدلرحمان شریف؟ یہ کون ہیں؟" " یہ وہی شخص ہیں جنھوں نے مجھے بتایا کے میں کیا ہوں. میں کون ہوں. انھوں نے ہی مجھے بتایا کے میرا مقام کیا ہے. مجھے الله رب العزت نے کیوں بنایا ہے. کیا وجہ تھی میری تخلیق کی." صونیہ مزید گویا ہوئی." مگر کیسے؟ تم تو میری جیسی تھیں ناں؟ ان چار ماہ میں تم کیا سے کیا ہوگئیں؟ تمہیں کوئی افسوس نہیں ہے؟" اب کے ضحی پریشانی اور غصّے کے ملے جلے لہجے میں بولی." افسسوس؟؟ کیسا افسوس؟؟ افسوس کرنے کے لیے نہیں بدلی میں!" صونیہ نے سیدھا سیدھا جواب ضحی کے سامنے رکھا. او کم اون یار! تمہیں واقعی کوئی افسوس نہیں؟" ضحی کا یقین کرنا بے انتہا مشکل ہو رہا تھا. " نہیں بھئ!" ضحی کا منہ مزید کھل گیا. " یار تمہیں کوئی ملال نہیں کے اب تمہیں کوئی دیکھے گا بھی نہیں. کوئی تعریف بھی نہیں کرے گا. میری نظر میں نا تم بیوقوف ہو!" ضحی کو اب غصہ آ رہا تھا. "نہیں بلکل بھی نہیں! بلکے میں اللہ کا شکر ادا کرتی ہوں کہ اس نے مجھے نامحرم کی نگاہ سے بچا لیا. اور اگر دکھانا ہی ہے تو خواتین ہیں نا دیکھنے کے لئے. اور پھر باپ بھائی بھی ہیں. انھیں دکھاؤ! نا محرموں کو دکھانا فرض ہے؟" صونیہ نے بےحد تحمل سے جواب دیا. " مجھے تو انکل اور آنٹی پے حیرت ہو رہی کہ انھیں کیا ہوا تھا جو یہ سب.......اوہ مرے خدایا! لوگ کیا کہیں گے!" " سنو،میں بتاتی ہوں. ہم چار ماہ سے لاہور میں تھے. ہیں ناں؟" ہاں تھے تم لوگ لاہور میں پھر؟" ضحی بے انتہا تجسّس سے دو چار ہو رہی تھی. " پھر یہ کہ جانا تو ہمیں صرف ٢ ماہ کے لئے تھا مگر بابا کے کچھ بزنز اشوز کی وجہ سے وہاں ٤ ماہ گزارنے پڑے. ان ٤ ماہ میں بابا کی ملاقات ڈاکٹر عبدرحمان شریف سے ہوئی. کیسے ہوئی یہ میں نہیں جانتی. پھر ایک دن بابا نے انھیں ہمارے گھر کھانے پے بلایا. وہ دن ہے اور آج کا دن ہے. یار میں نہیں جانتی کہ ان کی شخصیت میں ایسی کیا بات تھی کے مجھے ان سے کھچاؤ ہوا. میں ان سے ملی اور جب بات کی تو یقین کرو یار میں ان کی مرید بن گئی. ان کا بولنا، چالنا، لکھنا، پڑھنا...ہر چیز مجھے اچھی لگنے لگی. اور ایک دم سےنہیں. آہستہ آہستہ میں ان کی کہی ہر بات پر عمل کرنے لگی. اور بس آج تمھارے سامنے ہوں." صونیہ کے چہرے پے سکون کے آثار نمایاں ہونے لگے. "صونیہ وہ کیا چیز تھی جس کی وجہ سے تمہیں ان سے کھچاؤ محسوس ہوا؟" ضحی نے ایک اور سوال کیا. "ایمان... صرف اور صرف ایمان تھا ضحی اور کچھ نہیں. ان کا ایمان ان کے چہرے پر نور بن کر چمک رہا تھا." صونیہ کی طرف سے سیدھا سادھا جواب آیا. ضحی کھڑی ہوئی اور اپنی کرسی کو گھسیٹ کر مزید صونیہ کے قریب کیا. جس سے اس کی دلچسپی صاف ظاہر  ہوئی. "مگر ایمان تو ہم سب رکھتے ہیں کہ الله ایک ہے اور محمّد ﷺ  آخری رسول ہیں. تو پھر؟؟" ضحی کو تجسس ہوا. " ہم صحیح کہا تم نے. میرے ذہن میں بھی یہی سوال آیا تھا مگر جانتی ہو ڈاکٹر صاحب نے میرے اس سوال کا کیا جواب دیا؟" ضحی کے منہ سے اک دم نکلا. " کیا؟" انہوں نے کہا کے ایمان کی پختگی کا دعوہ تو ہم سب کرتے ہیں پر کوئی ثابت نہیں کرتا. "کیا مطلب؟" ضحی کو صونیہ کی بات سمجھ نہ آئی. "مطلب یہ کہ مانتے تو ہم سب ہیں کے الله ایک ہے، ہمارا پروردگار ہے، محمّد ﷺ آخری رسول ہیں، قیامت کو بھی آنا ہے. لیکن کیا ہم الله اور محمّد ﷺ کے بتاے احکامات کو عمل میں لاتے ہیں؟ نہیں! بلکل بھی نہیں!" "اہ ......" ضحی نے کچھ کہنے کے لئے اپنا منہ کھولا مگر کہ نہیں سکی. وہ کسی غیر مرءی نقطے کے بارے میں سوچنے لگی. اور نظریں جیسے صونیہ کے چہرے پر جم سی گئیں. اپنی سوچوں کی دنیا سے واپس تب آئی جب صونیہ کی آواز سماعت سے ٹکرائی. " ضحی! کیا ہوا؟ کہاں کھو گئیں؟” " نہیں یار! میں سوچ رہی تھی کہ اگر احکامات پر عمل کرنا ہی ہے تو کسی اور حکم پر عمل کر لیتیں. یہ موٹا سا برقع اور اسکارف کیوں لے لیا بہن. گرمی نہیں لگتی؟!" ضحی نے صونیہ کو سوالیہ نظروں سے دیکھا. " بےحیائی کی ٹھنڈک سے پردے کی گرمائش بہتر ہے. " صونیہ نے سیدھا سدھا اور چھوٹا  مگر مکمل جواب دیا. " مگر یار...تم ...ایسے کیسے؟" ضحی کا دماغ اب بھی وہیں اٹکا تھا. "دیکھو یار! جہنم کی گرمی اس گرمی سے ١٠٠٠ گناہ زیادہ ہو گی. جہنم کی گرمی تو ہم برداشت کر نہیں سکتے. تو ہمیں ایسے اعمال کرنے چاہیں جو ہمیں جہنم کی سختی اور گرمی سے بچائیں." صونیہ کے جواب سے ضحی کا منہ بند ہو گیا. آگے کیا کہتی. کچھ کہنے کے لئے بچا ہی نہیں تھا. " ضحی، صونیہ بیٹا اگر آپ لوگوں کی گول میز کانفرنس ختم ہو گی ہوتو میں کھانا لا  دوں؟" رافعہ کی آواز پر دونوں نے پیچھے مڑ کر دیکھا. " جی امی" "جی آنٹی" دونوں نے یک زبان ہو کر کہا.
********************
" چلو ضحی جلدی سے جا کر کپڑے بدلو اور سونے کے لئے لیٹ جاؤ." رافعہ نے گاڑی سے اترتے ہوئے ضحی کو مخاطب کیا. "جی ماما" کی گم سم سی آواز رافعہ کی سماعت ٹکرائی. دوپٹہ زمین پر گھسیٹتی ضحی سیڑھیاں چڑھتی اپنے کمرے کی جانب بڑھی. ناب گھما کر دروازے کو اندر کی طرف دھکیلا اور وہ اندر کھلتا چلا گیا. دوپٹے کو بیڈ کی طرف اچھالا اور خود ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے آ کر کھڑی ہو گئی. "کیا میں گناہ گار ہوں؟ بہت گناہ گار ؟ بےپردہ؟ جہنم کی گرمی؟ بے حیائی کی ٹھنڈک؟ کیا میں بے حیا ہوں؟ اگر میں پردہ کرنے لگی تو لوگ کیا کہیں گے؟ صونیہ نے یہ سب نہیں سوچا تھا کیا؟" ضحی کے دماغ میں اس طرح  کے سوالات گھوم رہے تھے. نظر اٹھا کر اپنا چہرہ آئینے میں دیکھا تو اس پر بےچینی، اضطراب اور پریشانی کے آثار صاف ظاہر تھے. "یہ میں کیا سوچ رہی ہوں؟ اف! کیا ہو رہا ہے مجھے!؟" اس کا چہرہ زرد پڑ چکا تھا. بے ساختہ اپنے چہرے کو ہاتھ لگایا. اس کی آنکھیں مکمل طور پر کھل گئیں. آہستہ آہستہ بالوں میں سے پنیں نکل کر بالوں کو آزاد کیا اور ایک ڈھیلے سے جوڑے کی صورت میں تمام بالوں کو لپیٹ کر واش روم  کی جانب بڑھ گئی. تولیہ ہاتھ میں لئے واش روم سے باہر  آ کر لپیٹے ہوۓ بالوں کو مکمل طور پر کھول دیا. تولیہ سے چہرہ پوچھا اور اسکو ایک طرف اچھل دیا اور بیڈ پر آ کے بیٹھ گئی. اس سے پہلے کے کوئی اور سوچ اس کے دماغ میں آتی دونوں ہاتھ سر کے نیچے رکھ کے لیٹ گئی. بہت بار سونے کی کوشش کرنے باوجود نیند نہ آئی. صونیہ کی کہی باتیں جیسے اب اسے منہ چرا رہیں تھیں. پردہ، بےپردہ، گناہ، ثواب، احکام، جنت، جہنم.... یہ ساری باتیں بار بار اس کے ذہن میں آ رہیں تھیں. نا جانے کیوں اور کیسے پر ایک دم اس کا دل چاہا کے وہ ڈاکٹر عبدرحمان سے جا کے ملے. اور یہی وہ آخری سوچ تھی جس کے بعد وہ خوابوں کی دنیا میں کھو گئی.
********************
ضحی کا پورا کمرہ سورج کی کرنوں کی وجہ سے چمک رہا تھا. ضحی اپنی نیند سے تب بیدار ہوئی جب ان کرنوں کا رخ بدلہ اور وہ سیدھا اس کے چہرے پر پڑنے لگیں. اک دم پوری آنکھیں کھولنی کی کوشش میں ناکام ہوئی تو آنکھیں چندھیا  کر گردن موڑی اور سائیڈ ٹیبل پر پڑے موبائل کو اٹھا کر اس میں وقت دیکھنا چاہا. آنکھیں مکمل طور پر کھل گئیں جب موبائل پر 11:45am  جگمگاتے دیکھا. یکا یک بیڈ سے اٹھی اور واش روم کی جانب دوڑ لگا دی.
********************
منہ ہاتھ دھو کے اپنا حلیہ درست کیا اور نیچے ڈائننگ روم میں آ گئی. ڈائننگ روم سے چند قدم آگے کچن تھا. وہاں موجود بوا پر نظر پڑی تو ان سے رافعہ کے بڑے میں پوچھا. "بوا ماما کہاں ہیں؟"  "بیٹا رافعہ بی بی ابھی ابھی اپنے کمرے میں گئی ہیں." بوا نے بتایا. "اچھا!" کہ کر وہ جانے کے لئے پلٹی تو پیچھے سے بوا کی آواز آئی. "ضحی بیٹا! آپ کا ناشتہ ٹیبل پر ہی لگا دوں؟" مڑے بغیر "جی" کہ کر نکل گئی. جلدی جلدی سیڑھیاں چڑھ کر رافعہ کے کمرے میں آ گئی. دل میں یہ خیال تھا کہ ماں سے صونیہ اور اس کے کل والے حلیے کے بارے میں بات کرے گی. مگر نا جانے کیا سوچ کر ماں سے کوئی بات نہ کی بس جا کے ان کے بیڈ پر بیٹھ گئی. واش روم کے دروازے  کی جانب دیکھا تو وہ اندر کی طرف کھلا اور وہاں سے رافعہ نکلیں. "ارے ضحی بیٹا! اٹھ گئیں؟ کب اٹھیں؟" ضحی کو اپنے بیڈ پر بیٹھے دیکھا تو اس سے سوال کیا. "جی ماما بس ابھی ابھی اٹھی ہوں." ضحی نے ماں کو جواب دیا. "آج کافی دیر نہیں ہو گئی اٹھنے میں. کوئی بات تھی یا..اس لئے کہ اب تو چھٹیاں ہو گئی ہیں... ہم...؟؟؟" " رافعہ ہلکہ س مسکرائیں اور ضحی ایک اور سوال کیا. ساتھ ہی ڈریسنگ ٹیبل پر پڑے ٹشو باکس سے ایک عدد ٹشو  نکالا اور اس سے ہاتھ پوچھنے لگیں. "کیا ماما! آپ کو پتہ تو ہے کہ کچھ بھی ہو میں ٨ بجے تک اٹھ جاتی ہوں." "ہم ...یہ بات تو ہے. اچھا چلو نیچے چلیں. ناشتہ کرتے ہیں." رافعہ ضحی کے قریب آئیں اور اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے اٹھانا چاہا. "ماما آپ نے بھی ابھی تک ناشتہ نہیں کیا؟" ضحی کو حیرت ہوئی. " جی میری جان! جب میری پیاری سی بیٹی نے ہی ناشتہ نہیں کیا تو میں کیسے کر لوں؟........آؤ چلیں" رافعہ زیر لب مسکرائیں اور ضحی کو اپنے ساتھ نیچے لے گئیں.
********************
سارا دن اسی طرح گزر گیا. ضحی پر عجیب سی اضطراب اور بے چینی کی سی کیفیت طاری رہی. نہ موبائل میں، نہ دوستوں میں نہ کسی اور چیز میں اس کا دل لگا.
********************
٢ اور مزید دن ایسی طرح گزر گئے. اور اب اسکا صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا تھا. "کچھ بھی ہو جائے میں یہ نہیں پہنوں گی! "اس نے اپنے دل میں سوچا اور ہاتھ سے پینٹ اٹھا  کر پھینک دی. "اور یہ ٹی- شرٹ ..........اس کو تو میں....پاس پڑی قینچی اٹھائی اور ٹی-شرٹ کے ٹکڑے ٹکڑے  کر دئیے."یارررررررررر.....کیا مصیبت ہے!" وہ با آواز بلند چیخی. نیچے ٹی-وی لاؤنج میں موجود رافعہ نے جب ضحی کی آواز سنی تو ڈوری ڈوری اوپر آئیں. " کیا ہوا ضحی؟!" رافعہ نے  پریشانی سےضحی سے پوچھا. اور جب نظر ان ٹی-شرٹ کے ٹکڑوں پر پڑی تو وہ پریشانی حیرانی میں تبدیل ہو گئی. "ماما! میرے پاس کوئی بھی ڈھانکا سوٹ کیوں نہیں ہے!" رافعہ سمجھ گئیں نہ ہی یہ سوال تھا نہ ہی جواب. یہ شکوہ تھا. "کیوں بیٹا؟ کیا ہوا؟ یہ سارے کپڑے تم نے اپنی مرضی اور پسند سے ہی تو لئے تھے. تو اب کیا مسلہ ہے!؟ اور یہ ریڈ شرٹ تو تمہاری پسندیدہ تھی نا! پھاڑ کیوں دیا اسے؟" وہ اب بھی حیران و پریشان تھیں. " But mama I am not satisfied! اہ...!" ضحی کے اس جملے پر رافعہ کو لگا کہ ان کی بیٹی کسی الجھن کا شکار ہے. جو بھی تھا ماں تو ماں ہوتی ہے. "اچھا! اوکے! پر کیوں؟ Why are you not satisfied” بیٹا؟" "پتا نہیں." ضحی کے پاس اس بات کا کوئی جواب نہیں تھا. "کیا پہننا چاہتی ہو بیٹا؟" رافعہ نے بہت محبت سے ضحی کے کندھے پے ہاتھ رکھا. "ماما...کچھ..کچھ ایسا جو ڈھیلا ڈھالا ہو. یہ کپڑے بہت ٹائٹ ہیں."  ضحی اب بھی الجھی ہوئی تھی. "مگر بیٹا پینٹ شرٹ تو ٹائٹ ہی ہوتی ہے نہ." "ماما....... مجھے نہیں پہننا یہ. بس!" ضحی نے اک دم ماں کا ہاتھ اپنے کندھے سے ہٹایا اور اپنے بیڈ پے جا کے بیٹھ گئی. گھٹنوں کے گرد ہاتھ لپیٹ اور دوسری طرف چہرہ کر کے اپنے گھٹنوں پر رکھ دیا. "ہم.. اچھا..کہیں آپ پر خیر سے صونیہ کی باتوں کا اثر تو نہیں ہو گیا؟ کیوں کے جس دن سے آپ اس سے مل کے آئی ہیں، آپ.." "ماما پلیز! آپکو کیا ہو گیا ہے؟ کیسی باتیں کر رہیں ہیں آپ؟ مجھے کیوں ہو گا کچھ اس سے؟ وہ جو کرنا چاہتی ہے کرے. مجھے کیا!" ضحی نے یکا یک سر اٹھایا اور ماں کی بات کاٹی. وہ ماں کو یہ ظاہر کروانا چاہتی تھی کہ جیسے وہ غلط ہوں مگر دل میں اس بات کا اقرار کر چکی تھی کہ وہ صونیہ سے انسپائر ہوئی ہے اور اب اس کے جیسے بننا چاہتی ہے. " اچھا. چلو مان لیتی ہوں." رافعہ نے بغور ضحی کی آنکھوں میں دیکھا. اور دوبارہ گویا ہوئیں. "نہیں پہننا تو مت پہنو. جاؤ خالد بابا کے ساتھ جا کر لے آؤ اپنے لئے ڈھیلے ڈھلے کپڑے. رافعہ نے ڈھیلے ڈھلے پر زور دے کر کہا اور واپس جانے کے لئے مڑ گئیں."نہیں...مجھے نہیں جانا. میرا دل نہیں کر رہا. آپ ان سے کہیں وہ خود لے آئیں. یا بوا کو بھیج دیں ان کے ساتھ." ضحی کی بات پر واپس مڑیں اور ایک لمبی سانس لے کر سر دائیں بائیں گھمایا (جیسے کہنا چاہ رہیں ہوں "کیا کروں میں تمہارا؟") اور "اچھا"  کہ کر نکل گئیں.
********************
"ماما!" سیڑھیاں پھلانگتی ہوئی آتی ضحی نے رافعہ کو آواز دی. "ہم؟؟" ٹی-وی دیکھتی ہوئی رافعہ نے بغیر نظریں ٹی-وی سے ہٹاۓ ضحی کو جواب دیا. "ماما سنیں نہ بھئ! آپ سے ایک ضروری بات کرنی ہے." "جی کیجیے اپنی ضروری بات." رافعہ نے سامنے ٹیبل پر پڑے ریموٹ سے ٹی-وی کو خاموش کیا. "ماما! دوپہر میں آپ نے مجھ سے پوچھا تھا نا کہ ان چھٹیوں میں میں کہاں جانا چاہتی ہوں؟" "جی پوچھا تھا. تو پھر سوچ لیا آپ نے؟ کہاں جانا ہے؟" "جی! مجھے لاہور جانا ہے. وہ بھی صونیہ کے ساتھ." "مگر بیٹا آپ تو پورا پاکستانی گھوم چکی ہیں نا؟ تو پھر؟"  "جی ماما جانتی ہوں. مگر اس بار صونیہ کے ساتھ جانا چاہتی ہوں. کسی خاص شخصیت سے ملنا ہے." "اچھا.  چلو جیسی آپکی مرضی. مگر کہیں وح خاص شخصیت ڈاکٹر عبدرحمان تو نہیں؟" رافعہ نے ضحی کو سوالیہ نظروں سے دیکھا تو وح نظریں چرا گئی. "نہیں تو........ آپکو کس نے کہ دیا؟" اس کی نظریں اب بھی جھکی ہوئیں تھی. "دیکھو بیٹا! میں تمہاری ماں ہوں. اور ماں سے زیادہ اپنی اولاد کو کوئی نہیں جان سکتا. اگر ایسا ہی ہے تو مجھے بتاؤ." رافعہ نے پیار سے ضحی کا چہرہ ٹھوڑی سے پکڑ کر اپنی طرف کیا. "ماما وہ...... مجھ...مجھے کیا ہو رہا ہے میں نہیں جانتی. بس دل کرتا ہے کہ بلکل صونیہ جیسی ہو جاؤں. لگتا ہے جیسے.... جیسے میں کسی گہرے گڑھے میں گر رہی تھی. اور الله نے مجھے تھامنا چاہا ہے جبھی صونیہ کو مجھ سے اس طرح ملوایا. پہلے پہلے تو مجھے اس کی باتیں زہر لگتیں تھیں. مجھے غصّہ آتا تھا. مگر اب.... اب مجھے اپنے اب تک کے کئے گئے گناہوں سے خوف آتا ہے.جہنم سے زندگی میں پہلی بار خوف آنے لگا ہے. دل کرتا ہے خود تو کہیں چھپا لوں. کسی ایسی جگہ جہاں کوئی ایسی چیز نہ ہو جس سے میں گناہ کر سکوں. جہاں کوئی نا محرم نہ ہو. دل میں کہیں چبھن سی ہے. اور پتہ نہیں کیوں ماما لگتا ہے وہ چبھن ڈاکٹر عبدرحمان سے ملنے کے بعد ختم ہو جاۓ گی." رافعہ نے ضحی کی پوری بات بہت دھان اور تحمل سے سنی اور صرف اتنا کہا. "ہم.... ٹھیک ہے. تم صونیہ سے ملو اور اس بارے میں بات کرو. میں تو خود چاہتی ہوں تم بدل جو بیٹا." اور وہاں سے اٹھ کر چلی گئیں. دل ہی دل میں انہوں نے سکھ کا سانس لیا ضحی بلا آخر خود کو بدلنا چاہتی ہے. انھیں ایسے ہی کسی لمحے کا انتظار تھا.
********************
پاس پڑا اپنا موبائل اٹھایا اور "صونیہ فرینڈ" کو کال ملائی. ١ بار، ٢ بار، ٣بار، ٤بار یہاں تک کہ ٨ بار رینگ ہوا. مگر کال ریسیو  نہ کی گئی. مایوس ہو کر موبائل واپس سائیڈ میں پھینک دیا. ابھی وہ سوچ ہی رہی تھی کہ صونیہ سے بات کس طریقے سے کرنی ہے کہ اس کا موبائل بجنے لگا. سکرین کی جانب دیکھ کو اس پے "صونیہ فرینڈ کالنگ" جگمگا رہا تھا. اس نے یکا یک موبائل اٹھایا اور کال ریسیو کی. سلام دعا کے بعد اس نے صونیہ سے کال ریسیو نہ کرنے کی وجہ پوچھی. "کہاں غایب تھیں؟ کال ریسیو کیوں نہیں کی تھی میری؟" "ہاں وہ اصل میں میں ابھی ابھی گھر پوھنچی ہوں. بابا کے ساتھ گئی تھی. کچھ کام تھا اس لئے. سوری!" "اچھا! ارے سوری کی کوئی بات نہیں." کہ کر وہ خاموش ہو گئی اور سوچنے لگی کہ کیسے صونیہ کو بتاۓ کہ اس نے صونیہ کو کیوں کال کیوں ہے. دوسری طرف خاموشی پا کر صونیہ نے گفتگو کو آگے بڑھایا. "خیر تم بتاؤ. کیسے یاد کیا مجھے. کوئی کام؟" "یار وہ اصل میں نا......." "ارے کہو کیا بات ہے. اتنی نروس کیوں ہو رہی ہوں بہن؟ بتاؤ." " یار وہ اصل میں لاہور جانا چاہتی ہوں.... تمھارے ساتھ." "میرے ساتھ؟؟؟ خیر تو ہے بہن؟" صونیہ کو اس کی یہ بات سن کر حیرانی ہوئی. "ہاں نا. تمھارے ساتھ! مجھے وہ...میں نا ڈاکٹر عبدرحمان سے ملنا چاہتی ہوں." اس نے ڈرتے ڈرتے کہا. "اچھا! ٹھیک ہے . مگر اس میں اتنا ڈرنے کی تو کوئی بات نہیں تھی." صونیہ کو اس کی معصومیت پے ہنسی آ گئی. "نہیں وہ اصل میں میرا دل چاہا کہ میں بھی ان سے ملوں جن سے تم اتنا انسپائر ہوئیں." "ہاہا اچھا چلو ٹھیک ہے. وہ ہیں ہی ایسے کہ ان سے ملنے کا دل چاہے. " "ہاں تو بتاؤ تم چلو گی نا میرے ساتھ؟" "ہاں وہ تو ٹھیک ہے پر مجھے امی سے اجازت لینی ہو گی نا. اور ویسے بھی ابھی ہم اتنے بڑے تو ہیں نہیں کے اکیلے جا سکیں." "ہاں ٹھیک ہے تم آنٹی سے اجازت لے لو پھر مجھے بتانا. میں امی کو منا لوں گی کہ وہ بھی ہمارے ساتھ چلیں. پھر تو کوئی مسلہ نہیں ہو گا نا؟" "ہاں پھر ٹھیک ہے." بات مکمل کر کے اس نے الله حافظ کہا اور لائن کاٹ دی.
********************
جاری ہے.....





 
 
 

1 Comment


Humail Uddin
Humail Uddin
Feb 20, 2021

Yaaaaaaaaaaaaaaaar Aweosme kia novel hai. Woowwwwwwwwwww


Like
Post: Blog2_Post

Subscribe Form

Thanks for submitting!

©2021 by writer armeen. Proudly created with Wix.com

bottom of page