top of page
Search

Dosti Or Eeman Part 3

  • Armeen Aabroo
  • Feb 19, 2021
  • 40 min read

Updated: Feb 20, 2021

Dosti Or Eeman by Armeen Aabroo Part 3. This novel is based upon a girl who has to choose her path by acting upon her friends’ advice. Either right path or wrong. In this novel evils of our society have been highlighted. And how the girl is going to find her path by facing different and difficult problems.


About Writer


Armeen Aabroo is an emerging new writer and it’s her new novel that is being written for our platform. She has written many famous novels for her readers .These novels will surely grab your attention. Readers like to read her novels because of her unique writing style.

دوستی اور ایمان

٣ حصّہ

اسکے سوال پر برابر کھڑی رافعہ کے قدم لڑکھڑائے. کمرے سے باہر جاتے افتخار صاحب بھی جیسے اپنی جگہ جم سے گئے. ان دونوں کو بلکل توقع نہیں تھی کہ وہ ان سے ایسا سوال کرے گی. افتخار صاحب نے مڑ کر پہلے رافعہ کو دیکھا ور پھر ضحی کو جو بستر پے لیٹی ان سے کئیے گئے اپنے سوال کے جواب کی منتظر تھی. "ضحی بیٹا میں..." رافعہ نے کچھ کہنا چاہا مگر وہ بھانپ گئی کہ یہ اسکے سوال کا جواب نہیں اسلئے ان کی بات کاٹ دی. "ماما!!! میں نے جو پوچھا ہے اس بات کا جواب دیں." اس نے بظاھر غصے سے کہا مگر آواز ہلکی ہی رکھی. اپنے دل میں ہوتی تکلیف کو یا تو صرف وہ محسوس کر سکتی تھی یا اسکا خدا جانتا تھا. رافعہ ذرا پیچھے کو ہوئیں. "بیٹا ہم نے......" اس بار افتخار صاحب نے کہا. اور دوقدم آگے بڑھے. "بابا پلیز.... مجھے سچ بتائیں!" افتخار صاحب کے قدم ایک بار پھر سے جم گئے. ایک لمبی سانس انہوں نے اپنے اندر اتاری. اور پھر گویا ہوئے. "بیٹا ہم ڈر گئے تھے. ہم تمہیں یہ بات بتانا نہیں چاہتے تھے. ہم جاتے تھے کہ تمہیں بہت تکلیف ہو گی. تم بہت پریشان ہو جاؤ گی." "اسلئے آپ لوگوں نے مجھ سے یہ بات چھپائی؟ اف! بابا ماما مجھے اب، اس طرح، چوری چھپے یہ بات جان کر زیادہ تکلیف ہوئی." اس نے باری باری دونوں کو دیکھ کر جواب دیا. رافعہ اور افتخار صاحب دونوں نے ایک بار پھر ایک دوسرے کو دیکھا. کچھ لمحے خاموشی حزم کر گئی. اس نے کچھ کہنے کے لیے منہ کھولا مگر الفاظ کی جگہ منہ سے پھر وہی خون باہر نکلا. کھانسی روکنے کے لئے اسنے اپنے منہ پر ہاتھ رکھا تو خون اسکے ہاتھ پر لگ گیا. رافعہ نے اسکو کھانستے دیکھا تو یکایک اسکی جانب لپکیں. "بیٹا!" بغیر ماں کی جانب دیکھے ہاتھ فضا میں بلند کر کے انہیں روکنا چاہا. "ماما! اب یہ سب معمول ہی سمجھیں. ذرا سی کھانسی پر اگر اس طرح کریں گی تو میری موت پر آپ کا کیا حال ہوگا؟ کبھی سوچا ہے؟" اسکی اس بات نے کسی چاقو کی طرح کام کیا. رافعہ کو لگا کسی نے ان کے دل پر چاقو سے وار کیا. " ضحی! بیٹا خدا کا واسطہ ہے ایسی باتیں مت کرو. میں کیوں سوچوں گی تمہاری موت کے بارے میں؟" شدّت جذبات سے انکی آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے. "ماما سوچا کریں... سوچا کریں کیونکہ مرنا تو سب کو ہے. مجھے بھی! آج نہیں تو کل...." اسکی اپنی آنکھیں بھی نم ہو گئیں. چند قدم دور کھڑے افتخار صاحب بہتے آنسوؤں کے ساتھ کمرے سے بھر نکل گئے. وہ اب مزید ضحی کی کڑوی کسیلی باتیں نہیں سن سکتے تھے. اسے کچھ کہ بھی نہیں سکتے تھے. اسکا اتنا حق تو تھا نا کے اپنے دل کی بھڑاس نکال سکے.

**********

٢ ماہ بعد

کسی بات پر ان دونوں کا قہقہ بلند ہوا. وہ دونوں بہت زور سے ہنسیں تھیں. اتنی زور سے کہ دور کھڑی مس فردوس نے ان دونوں کو مڑ کر دیکھا. کشمالہ کے سامنے بیٹھی عالیہ نے اسکی جانب ہاتھ بڑھایا. اس نے عالیہ کے بڑھے ہوئے ہاتھ پر زور سے اپنا ہاتھ مارا. تالی کی آواز خوب زور سے کینٹین میں گونجی تھی. جبکہ مس فردوس اب ان دونوں کو باقاعدہ گھور رہیں تھیں. "عجیب لڑکیاں ہیں. کیسے جلادوں کی طرح ہنس رہیں ہیں. ہونہہ!" انہوں نے زیر لب کہا. "یار قسم سے عالیہ بہت ہنساتی ہو تم. ہاہاہا!" کشمالہ نے عالیہ سے کہا. وہ دونوں اب تک ہنس رہیں تھیں. "عالیہ! کشمالہ! کچھ زیادہ ہی ہنسی نہیں آرہی آپ لوگوں کو. ہم؟" مس نے قریب آ کر ان دونوں کو مخاطب کیا. "مس ہنسنے کی بات ہو گی تو ہنسی تو آئے گی نا." کشمالہ کو تو جیسے کسی چیز کا ہوش نہ تھا. مس سامنے کھڑیں تھیں پر اسکے دانت اندر جانے کا نام نہیں لے رہے تھے. "کشمالہ!" عالیہ اک دم سنجیدہ ہو گئی جب اس نے مس فردوس کی پھولتی ناک، سخت پڑتے نقوش اور سرخ ہوتیں آنکھوں کو دیکھا. "ہاں؟" کشمالہ بھی الرٹ ہو گئی. اس سے پہلے کہ وہ مس کی جانب دیکھتی، مس نے با آواز بلند اسکا نام پکارا. "کشمالہ!!!" "جی مس.." اس نے بے پناہ معصومیت سے کہا. "شرم تو آتی نہیں آپ لوگوں کو. دوست آپکی گھر میں بیمار پڑی ہے اور آپ لوگوں کو ہنسی آرہی ہے. پاگلوں کی طرح ہنس رہیں ہیں دونوں. اگر کالج میں اسکے والدین آکر انفارم نہ کرتے تو آپ لوگوں کو پتا ہی نہ چلتا. ایک بار بھی..... ایک بار بھی اسے کال کی ہے؟ حال پوچھا ہے اسکا؟" انہوں نے ذرا رک کر دونوں سے سوال کیا. "نو مس." دونوں نے نظریں نیچے کر کے ایک ساتھ جواب دیا. "دوستی کے ناطے نہ سہی انسان انسانیت کے ناطے ہی پوچھ لیتا ہے. مگر نہیں! آپ دونوں سے بڑا ڈھیٹ اور بدتمیز تو اس پورے کرہ ارض پر کوئی پیدا ہی نہیں ہوا ہے. پتا نہیں کیسے دوست ہیں." اپنی بات مکمل کر کے وہ جانے کے لیے مڑیں تو عالیہ نے انہیں زبان چڑائی. کمال مہارت سے اس نے اپنی زبان واپس اندر کر لی جب دیکھا کے مس واپس پلٹ رہیں ہیں. "کشمالہ آپ! آپ تو اچھی خاصی تھیں. اچھا پڑھتیں تھیں. الله جانے کیا ہو گیا ہے آپکو بھی." اب ان کا اشارہ صرف کشمالہ کی جانب تھا. "سوری مس." اس نے کہا. "ہونہہ!" کہ کر وہ وہاں سے چلیں گئیں. "عجیب! مطلب

کہ کچھ بھی! دماغ خراب کر دیا انہوں نے! آ جاتیں ہیں ہر وقت! میرے پیچھے ہی پڑیں رہتیں ہیں!" عالیہ نے غصہ سے کہا. "ارے چھوڑو یار. آج تو انہوں نے مجھے بھی نہیں بخشا. چلو چلیں. اردو کی کلاس ہے نا." کشمالہ نے اسکا غصہ ٹھنڈا کرنے کے لیے بات گھما دی. "ہاں!"

**********

" ضحی بیٹا کیا کر رہی ہو؟" کمرے میں داخل ہوتیں رافعہ نے اسکو مخاطب کیا جو اپنے بیڈ پر لیٹی کیسی کتاب کے صفحے پلٹ رہی تھی. "ہم ماما... یہ پڑھ رہی ہوں." اسنے کتاب کو ہوا میں لہراتے ہوئے رافعہ کو دکھایا. "اچھا جی تو پھر سے کسی کتاب میں گھسی ہوئی ہیں آپ.... اف ضحی! کیا کروں میں تمہارا؟ کون سے نمبر کی کتاب ہے یہ... اس سے پہلے اور کتنی کتابیں چاٹ چکی ہے میری شہزادی؟"انہوں نے بظاھر بارے لاڈ سے کہا مگر وہ ایک طنز تھا. "ہاہاہا! ماما اتنے پیار سے طنز کرتیں ہیں نا آپ." اسنے ہنستے ہوئے کہا. "میں مار لگا دوں گی تمہاری..عجیب لڑکی ہو جب دیکھو کتابوں میں منہ دئیے بیٹھی رہتی ہو." رافعہ چلتی ہوئی اسکے پاس آئیں اور بیڈ پر آ بیٹھیں. وہ اٹھ کر بیٹھ گئی اور چادر جو وہ اوڑھے ہوئے لیٹی تھی، اپنی طرف کھینچی تاکہ ماما آرام سے بیٹھ جائیں. "تو ماما اور کیا کروں؟ ڈاکٹروں کے منع کرنے کی وجہ سے میں سفر بھی نہیں کر سکتی ورنہ ڈاکٹر عبدرحمان سے جا کے مل آتی. آااہ! اب انکے پاس نہیں جا سکتی تو کم ازکم انکی لکھی کتابیں تو پڑھ ہی سکتی ہوں نا." اسنے تفصیل بتائی. "ہاں بھئ تمھارے پاس ہر بات کا جواب ہوتا ہے." رافعہ نے کہا. "ویسے ماما دیکھیں کتنی اچھی بات لکھی ہے نا ڈاکٹر صاحب نے یہاں." اسنے کتاب کو ماں کی جانب بڑھایا اور ایک لائن پر انگلی رکھی جو کہ رہی تھی. "حیا اور ایمان دو چیزیں ساتھ ساتھ ہیں. جہاں حیا نہ ہو وہاں ایمان نہیں ہوتا. اور جب ایمان ہی نا رہے تو انسان مسلمان نہیں رہتا." رافعہ نے اس لائن کو پڑھا اور بہت پیار سے ضحی کے سر پر ہاتھ پھیرا اور کہا. "ہاں بیٹا... واقعی یہاں بہت خوبصورت بات درج ہے. ماشاءاللہ!" انکی بات سے ضحی کی آنکھیں چمک اٹھیں اور اسکے ہونٹوں کو ایک مدھم سی مسکراہٹ نے چھو لیا. "اچھا ضحی بیٹا ذرا یہ تو بتاؤ کہ کشمالہ اور عالیہ کہاں غائب ہیں؟ نہ کوئی کال. نہ کوئی ملاقات..." کچھ لمحے خاموشی کے نام ہوئے پھر رافعہ نے اپنی بیٹی سے سوال کیا. "پتا نہیں ماما..کہاں غائب ہوںا ہے انہوں نے. ہونگی اپنی پڑھائی میں مصروف....ویسے بھی ایک ہفتہ ہو چکا ہے کالج کو دوبارہ کھلے ہوۓ." اسنے بے نیازی سے کتاب کے صفحے پلٹتے ہوے جواب دیا." لیکن بیٹا، نہ کوئی خبر،نہ ہی ان لوگوں نے تمہارا حال احوال جاننے کے لئے تم سے کسی بھی قسم کا رابطہ کیا." رافعہ نے ایک بار پھر اپنی بات دوہرائی مگر مختلف الفاظ میں." ماما کیا ہو گیا آپ کو... نہیں بتایا میں نے تو نہیں پتا چلا ہوگا انہیں." ضحی کے لہجے میں بے زاری در آئی. "ہم.... تم جو بھی کہ لو بیٹا، پر ایک بات ہمیشہ یاد رکھنا. مشکل وقت میں ہمیشہ صرف اپنے ہی کام آتے ہیں. ماں باپ، بہن بھائی یا صرف سچے دوست. اور سچے دوستوں کو کسی نا کسی طرح انسان کے حالت کا پتا چل ہی جاتا ہے. وہ سچا.... بلکہ دوست ہی کیا ہوا جو مشکل وقت میں انسان کیے کام نا آئے. اسکی بےساکھی نا بنے. اس کے زخموں پر مرہم نہ رکھے." اپنی بات ختم کر کے وہ اٹھیں اور خاموشی کے ساتھ کمرے سے باہر نکل گئیں. اور ضحی اپنی اسی جگہ پر بیٹھی انہیں دیکھتی رہ گئی جہاں وہ ایک ڈیڑھ گھنٹے سے بیٹھی کتاب پڑھ رہی تھی.

**********

ان دو ماہ میں اسنے اپنے اندر بہت سی تبدیلیاں محسوس کیں تھیں. وہ ڈاکٹر عبدرحمان سے تو نہیں مل سکتی تھی مگر ان کی لکھی کتابیں تو پڑھ ہی سکتی تھی. منزل کو پانے کا عزم رکھنے والے کبھی وقت اور اوقات کا انتظار نہیں کیا کرتے بلکہ وقت کو اسکی اوقات بتا کر آگے بڑھ جاتے ہیں۔ وہ منزل کو سامنے دیکھ کر افسوس کرنے والوں میں سے نہیں ہوتے بلکہ جب وہ اپنی منزل کا چناؤ کرتے ہیں تو افسوس کو کہیں بہت پیچھے چھوڑ آتے ہیں۔ وہ اپنی منزل تک پہنچنے کے لیۓ موقع کا انتظار نہیں کیا کرتے بلکہ وہ خود ایسے مواقع پیدا کرتے ہیں کہ منزل خود انکے قدموں میں آگرے۔ اور ضحی بھی ایسی ہی تھی. اس نے بدلنے کی ٹھانی تھی تو اب اسکو بدلنا ہی تھا.

**********

"یار آج تو بہت ہی سارا کام ملا ہے." عالیہ نے کلاس سے نکلتے ہوئے کشمالہ کو مخاطب کیا. وہ بھی اسکے ساتھ ہی کلاس سے باہر نکلی تھی. "کشمالہ تم سن رہی ہو نا؟ کہاں گم ہو؟" عالیہ ایک بار پھر بولی. اس نے چلتے چلتے رک کر کشمالہ کو ہلایا. "ہاں...ہاں کیا کہ رہیں تھیں تم؟" عالیہ کے ہلانے پر اسکو ہوش آیا. وہ کسی گہری سوچ میں گم تھی. "ارے یار! کیا سوچ رہی ہو؟" عالیہ نے ایک بار پھر جانا چاہا. "کچھ خاص نہیں یار." اسنے سرسری سا جواب دیا. "بتاؤ!!!" عالیہ کے زور دینے پر کشمالہ نے اسکو بتانے کا فیصلہ کیا. "یار تمہیں نہیں لگتا مس فردوس ٹھیک کہ رہیں تھیں؟" "واٹ!؟ تم پاگل ہو گئی ہو؟ کیا چاہتی ہو ہمارے ہنسنے پر بھی پابندی لگ جائے؟ ہیں؟" عالیہ نے اسکی بات کو کسی اور نظر سے ہی دیکھا. "ارے ارے میرا مطلب وہ نہیں تھا. یار وہ جو کہ رہیں تھیں... تمہیں نہیں لگتا کہ ہمیں ضحی کے گھر جانا چاہیے؟" اسنے ذرا رک کر عالیہ سے ایک اور سوال کیا. "کیا؟..... تم یہ سوچ رہیں تھیں؟ عجیب..یار گھر ور جانے کا تو میرا کوئی سین نہیں ہے. البتہ اگر تم فون کر کے حال احوال پوچھنا چاہتی ہو تو پوچھ لو. مجھے کیا!" اسکے لہجے میں پہلے بےزاری در آئی اور پھر یہی بےزاری کچھ سختی میں تبدیل ہو کر بے نیازی بن گئی. "کیا مطلب تم پوچھ لو؟ تم بات نہیں کرنا چاہتیں؟" کشمالہ نے عالیہ کے جملے کو دوہراتے ہوئے اس سے اس کی بے نیازی کے بارے میں سوال کیا. "بھئی یار...جب اسنے ہمیں اپنی بیماری کے بارے میں بذات خود کچھ نہیں بتایا تو ہم کیوں اسکی فکر کریں. دوست سمجھتی ہوتی نا ہمیں تو ضرور بتاتی...." عالیہ کے الفاظ کشمالہ کو زہر کی مانند لگے. "یہ تمہیں اس سے آخر ایسی کیا دشمنی ہو گئ ہے جو ایسی باتیں کر رہی ہو. Don't you know we our friends?

اور یہ کون سا کوئی خوشی کی خبر ہے جو وہ سب کو علی الاعلان بتاتی پھرے." "اچھا اچھا یار...بس کر دو. تم نے تو پورا لیکچر ہی دے ڈالا. آااہ! تم سچ جاننا چاہتی ہو؟" عالیہ کی جانب سے ایک سوال اچھالا گیا. "ہاں!" اسنے مختصر سا جواب دیا. "کی تھی میں نے اسکو کال. یہی کوئی ٥ سے ٦ دن پہلے. حال احوال جاننا چاہتی تھی میں. مگر ان ماڈم صاحبہ نے تو مجھ سے ایسی فضول باتیں شروع کر دیں. یقین کرو حیا اور پردے پر پورا درس دے دیا فون پے ہی. میں نے کہا آج کل کیا مصروفیات ہیں تو فرما رہیں تھیں کہ آج کل تو میں بس ڈاکٹر عبدرحمان کی لکھی کتابیں پڑھ رہی ہوں. عجیب یار! خدا جانے کون ہے یہ عبدرحمان. وہ کام جو اسنے خود آج تک نہیں کے ہوں گے وہ مجھ سے کہنا شروع ہو گئے. ایک لمحے کے لیے تو مجھے یقین ہی نہیں آیا کے یہ ہماری ضحی ہی ہے." عالیہ کے لہجے میں غصہ اور حقارت موجود تھی. صاف ظاہر تھا کہ وہ واقعی ضحی کی باتوں سے پریشان ہو گئے تھی. "ہیں ہیں! نہیں کرو..... واقعی؟ ضحی اور مذہب... نائس جوک! ہاہاہا!" کشمالہ نے عالیہ کو ایسا ظاہر کرایا کے وہ بھی ایسا ہی سوچتی ہے ضحی کے بارے میں. مگر جو حقیقت تھی وہ اسکے دل میں تھی. "وہی تو.. اسی لیے کہ رہی ہوں میں. مت کرو فون. سر کھا جائے گی تمہارا." عالیہ نے کہا. "ہم.. پر دوست ہونے کے ناطے کم از کم ایک فون کال تو بنتی ہی ہے." اسنے اپنے یونیفارم کی جیب سے اپنا موبائل نکالتے ہوئے کہا. "اف!! بہت ڈھیٹ ہو تم! کر لو.. پڑ جائے گی تمھارے کلیجے میں ٹھنڈک." عالیہ نے ایک بار پھر طنزکے تیر چلائے. کشمالہ نے اس کی بات سنی ان سنی کردی اور موبائل میں "ضحی فرینڈ " کے نمبر پر کال ملائی. ٹونٹ! ٹونٹ! ٹونٹ! دوسری طرف بیل جانے لگی مگر کال رسیو نہ کی گئی. 7 سے 8 بیلوں پر بھی جب کال رسیو نہ کی گئی تو کشمالہ نے لائن کاٹ دی. " دیکھ لیا. مل گیا سکون. قدر نہیں ہے اسکو ہماری. ہونہہ!... چلو چلیں وین آگئی ہے. عالیہ نے وین کے ہارن کی آواز پر پیچھے مڑ کر دیکھا اور کہا. " اوکے.... چلو چلیں. " کشمالہ نے بظاھر بے نیازی سے کندھے اچکائے مگر دل دل میں اسے عالیہ کے اس طرح کے رویہ پر افسوس ہوا. " کیا فرق پڑتا ہے اگر اس نے پردے یا الله کے بارے یا کسی بھی قسم کی مذہبی بات کردی. ٹھیک ہے عالیہ ہم سب میں سب سے زیادہ امیر ہے، ماڈرن ہے مگر ضحی تو دوست ہے نا. اسکے ساتھ اس طرح کا رویہ کیوں؟ میں بھی تو کوئی اتنا خاص پردہ نہیں کرتی مگر چادر تو لیتی ہوں. عالیہ نے مجھے تو کبھی اس طرح نہیں کہا پھر ضحی کو کیوں؟ " چلتے چلتے اس نے سوچا. ابھی وہ دونوں وین میں بیٹھیں ہی تھیں کے کشمالہ کا فون بجا. اپنی سیٹ سنبھال کر اس نے جیب سے موبائل نکالا تو سکرین پر "ضحی فرینڈ" جگمگا رہا تھا. کال رسیو کرکے موبائل کو کان سے لگایا. "اسلام وعلیکم! کیسی ہو؟" ضحی کی آواز سے خوشی جھلک رہی تھی. "میں بلکل ٹھیک ہوں. تم بتاؤ. ابھی میں نے تمہیں کال تھی... کہاں غائب تھیں؟ ہم؟" کشمالہ نے اس سے سوال کیا. "ہاں یار وہ میں کمرے میں نہیں تھی... موبائل بیڈ پر ہی پڑا رہ گیا تھا. ابھی اوپر آئی تو دیکھا تمہاری کال لگی تھی اس لیے کال بیک کر لی. تم کہاں ہو؟ کالج؟" ضحی نے جواب دیا ساتھ ہی اس سے ایک سوال بھی کر ڈالا. "ہاں بس ابھی ابھی وین میں بیٹھی ہوں. تم بتاؤ..... کیسی طبیعت ہے تمہاری؟ رپورٹس کیا کہتیں ہیں؟" کشمالہ نے اس سے اسکی طبیعت کے بارے میں سوال کیا. "آااہ! کچھ خاص نہیں یار بس وہی کھانسی کھانسی اور صرف کھانسی... اور رپورٹس.... اس میں تو صاف صاف لکھا ہے کہ میرا کینسر لاسٹ اسٹیج پے ہے. اب جو بھی کرنا ہے، اس ذات نے ہی کرنا ہے." ضحی نے تفصیل بتائی. عالیہ جو

موبائل سے کان لگائے تمام باتیں سن رہی تھی الله کے نام پر ایک دم پیچھے کو ہوئی اور کشمالہ کو اشاروں میں کہا. "لو بھئی ہو گئی شروع. تیار ہو جاؤ." جبکہ کشمالہ نے ایک بار پھر اسکی بات کو نظر انداز کر دیا اور ضحی سے گفتگو جاری رکھی. "یار تم مایوس تو مت ہو.. انشاءاللہ تم مکمل طور پر صحت یاب ہو جاؤ گی." کشمالہ نے اسکو تسلی دی. "ہاں.... اچھا یہ بتاؤ عالیہ کہاں ہے؟ کیسی ہے؟ آج ہی ماما نے تم دونوں کو یاد کیا تھا. آؤ نا کسی دن یا پھر میرے جنازے پے ہی آؤ گے تم لوگ؟ ضحی نے کمال مہارت سے اپنی بیماری کی بات کو ادھر ادھر کردیا. اسے پسند نہیں تھا کہ لوگ اس پر ترس کھائیں، اسکو تسلیاں دیں. مگر کشمالہ دوست تھی جبھی چند لمحے اسکی ایسی باتیں سن لیں. اسکو دوستی کا پاس رکھنا آتا تھا. وہ واقعی ایک اچھی دوست تھی. "الله نہ کرے. ضرور آئیں گے کسی دن. تم بس اپنا خیال رکھا کرو." کشمالہ نے عالیہ کو دیکھ کر جواب دیا. عالیہ کے چہرے پے بےزاری رقم تھی. اسنے ہلکی آواز میں کشمالہ سے کہا. "جلدی بات ختم کرو!" کشمالہ بس اسکو دیکھ کر رہ گئی. "ہاں خیال تو رکھ ہی رہی ہوں. بس گھر میں بیٹھے بیٹھے بور ہو جاتی ہوں. دل کرتا ہے کالج آنے کا." ضحی نے ایک بار پھر بات گھما دی. "ہم بوریت تو ہوتی ہو گی. موبائل استعمال کر لیا کرو...... یا پھر ڈرامے یا موویز جو تمہیں دیکھنا بہت پسند ہیں." کشمالہ نے اپنی سمجھ سے اسکو مشورہ دیا. "نہیں یار موویز... ڈرامے ورامے میں نہیں دیکھتی اب. ہاں البتہ کتابیں ضرور پڑھ لیتی ہوں. ڈاکٹر عبدرحمان کی لکھی کتابیں. ضحی نے اسے بتایا. اسے ڈاکٹر عبدرحمان کا ذکر کر کے بہت خوشی ہوتی تھی. "اچھا...." اسکو خاصی حیرت ہوئی. " ضحی اور موویز نہ دیکھنا...." اسنے سوچا. "ڈاکٹر عبدرحمان؟ یہ کون صاحب ہیں؟" "یار... اگر ابھی بتانے بیٹھی تو بات کافی لمبی ہو جائے گی. کسی دن گھر آنا تو ضرور بتاؤں گی. انشاءاللہ!" "ہم ٹھیک ہے... جیسے تمہیں مناسب لگے. اچھا سنو.... اگر میں ہفتے کو فارغ ہوئی تو ضرور چکر لگاؤں گی." کشمالہ نے اسے اپنے آنے کی خبر بھی سنا دی. "ہاں ضرور موسٹ ویلکم!" "چلو میں تم سے بعد میں بات کرتی ہوں. خیال رکھنا. الله حافظ!" ضحی نے بھی خدا حافظ کہا اور کال کاٹ دی. موبائل کو واپس جیب میں ڈال کر اسنے عالیہ کو دیکھا جو ایسا سڑا ہوا منہ بنائے بیٹھی تھی جیسے الله جانے کتنے غموں نے اسکو ایک ساتھ ان گھیرا ہو. "کیا ہوا؟ سڑے ہوئے کریلے جیسی شکل کیوں بنائے ہوئی ہے؟" کشمالہ نے ہنستے ہوئے شوشہ چھوڑا. "زیادہ فری مت ہو! کیوں کہا ہے اسکو کے تم اسکے گھر جاؤ گی؟ ہم؟" عالیہ کے چہرے کے نقوش مزید بگڑ گئے. "کیا مطلب کیوں؟ مجھے جانا ہے اس لئے ہی کہا ہے. اگر میں ہفتے یعنی پرسوں فری ہوئی تو ضرور جاؤں گی. تمہیں کیا ہے؟" کشمالہ نے سیدھا سادھا سا جواب دیا. "یار وہ...عجیب پاگل ہو تم... دیکھنا دماغ خراب کر دے گی تمہارا. پتا نہیں کیا ہو گیا ہے اسکو.... کون سا مذہب کا بھوت سوار ہو گیا ہے اس پر..... میری مانو تو مت جاؤ." عالیہ نے تو جیسے قسم کھائی ہوئی تھی کشمالہ کو ضحی سے ملنے سے روکنے کی. "یار تو تمہیں کیا ہے.... مجھے ملنا ہے تو ملنا ہے. الله جانے تمہیں کیا ہو گیا ہے. بھئی اسکی مرضی. وہ مذہبی باتیں کرے یا وہ باتیں جو تمہیں پسند ہیں. اب مجھ سے اسکے بارے میں اٹلی سیدھی باتیں مت کرنا." کشمالہ نے انگلی اٹھا کر اسکو اپنا فیصلہ سنایا. اسکا لہجہ سخت ہو گیا. "کشمالہ تم..... اف کیا ہو گیا ہے تمہیں!" عالیہ بھی اس بار غصے سے بولی تھی. آج وین میں زیادہ بچے نہیں تھے جبھی وہ اس طرح زور زور سے بول پا رہے تھے. ویں ایک جھٹکے سے رکی. کشمالہ نے کھڑکی سے باہر دیکھا تو سامنے اسکے گھر کی گلی نظر آرہی تھی."چپ کرو تم! الٹی سیدھی باتیں کر رہی ہو." کشمالہ سختی سے کہ کر وین کے دروازے کو زور سے کھینچا کر کھولا. "بیٹا آپ آج کی تاریخ میں وین سے اتر جائیں گیں." ڈرائیور کی آواز پر کشمالہ کا خون مزید کھول گیا مگر آھستہ سے "جی" کہ کر اتر گئی. عالیہ اسکو دیکھتی رہ گئی. "شٹ! اگر اسکو اس چڑیل نے کچھ بتا دیا. اف! میں کس دیوار پے اپنا سر ماروں! اتنی مشکل سے چھپائی ہوئی تھی یہ بات میں نے آج تک. اگر اسکو پتا چل گیا." عالیہ نے سوچا.

**********

ٹنگ ٹونگ! ٹنگ ٹونگ! ٹنگ ٹونگ! ایک ہی سیکنڈ میں تین سے چار بار بیل بجائی گئی تھی. "ہاں بھئی آ رہا ہوں. کون پاگل آیا ہے!" دانیال نے چیخ کر کہا. ناب گھما کر دروازہ کھولا تو سامنے کشمالہ کھڑی تھی. اسکے چہرے پے چھائی اداسی کو دیکھ کر وہ کچھ ٹھنڈا پڑا اور آرام سے اس نے کشمالہ سے اسکا بیگ لیا ساتھ ہی پوچھا. "کیا ہو گیا ماڈم؟ اتنی اداس، پریشان کیوں ہیں آپ؟" "کچھ نہیں بھائی جان. ہٹیں آگے سے." مدھم سی آواز میں اسنے جواب دیا مگر دانیال اسکے آگے ہی کھڑا رہا. آنکھیں چندھیا کر اسنے بہن کو بغور دیکھا. "کیا ہے بھائی جان ہٹیں نا!" کشمالہ نے اپنا چہرا اوپر کر کے دانیال سے کہا. وہ چھ ساڑے چھ فٹ کا لمبا چوڑا، اچھی شکل صورت کا حامل ٢٣ سالہ مضبوط لڑکا تھا. کشمالہ سے ماں کے بعد بےپناہ محبّت کرنے والا وہ ہی تھا. کشمالہ اس سے سات سال چھوٹی تھی. وہ اسکے تمام نخرے اور لاڈ با خوشی اٹھاتا تھا. کشمالہ بھی اس کی بے انتہا عزت اور اس سے بے انتہا پیار کرتی تھی. "نہیں پہلے بتاؤ! کیا ہوا ہے میری پیاری سی، کیوٹ سی باؤلی کو؟" دانیال نے اسکا دایاں گال کھینچتے ہوئے اس سے پھر وہی سوال کیا. "یار بھائی جان کچھ نہیں ہوا نا!" اسنے اپنے نازک ہاتھوں سے دانیال کو پیچھے کرنے کی کوشش کی مگر ناکام رہی. "ٹھیک ہے مان لیتا ہوں." اسنے کشمالہ کو جانچتی ہوئے نظروں سے دیکھا اور کہا. پھر اسکو راستہ دیا تو وہ آگے بڑھ گئی. ابھی اپنے کمرے کی دہلیز تک پوھنچی ہی تھی کہ اسکے قدم وہیں رک گئے جب اسنے دانیال کی آواز سنی. "باؤلی! امی کہ رہیں ہیں نہا دھو کر ٹیبل پر آجاؤ جلدی سے. کھانا لگانا ہے. اور ہاں... نہا کر ہی آنا... یہ نا ہو کہ خالی منہ دھو کر آ جاؤ.." کہ کر وہ ہنستا ہوا کچن میں امی کے پاس چلا آیا. "امی بھئی انکو سمجھا لیں. ہزار بار کہا ہے کہ مجھے باؤلی مت کہا کریں پر کبھی جو یہ میری بات من لیں." وہ غصّے سے کہتی ہوئی پیر پٹختی اپنے کمرے میں چلی گئی. اور دانیال اسکا ریکشن سن کر ہنستا ہی چلا گیا. "ہر وقت... ہر وقت تنگ کرتا رہتا ہے میری بیٹی کو. یہ بیلن دیکھ رہے ہو نا اسی سے مار لگا دوں گیں میں تمہاری." رابعہ نے دانیال کو ہاتھ میں پکڑا ہوا بیلن دکھایا جس سے وہ کچھ دیر پہلے سے روٹیاں بیل رہیں تھیں. وہ اب بھی ہنس رہا تھا. وہ چلتا ہوا کچن سے باہر آیا. مگر جس لمحے نکلا اسی لمحے واپس پلٹا، فرج کھولا اور اس میں سے ٢ اعداد کٹے ہوئے کھڑے اٹھا کر چلتا بنا. رابعہ صرف اسکو جاتے ہوئے دیکھتیں رہ گئیں. "باؤلا یہ خود ہے..." کہ کر وہ زیر لب مسکرائیں.

**********

"کہاں رہ گئی ہے یہ لڑکی. اتنی دیر سے کمرے میں بند ہے." رابعہ نے دانیال کو مخاطب کیا. "پتا نہیں امی. آج کافی اداس بھی لگ رہی ہے. الله جانے کیا ہوا ہے.... روکیں میں دیکھ کر آتا ہوں." کہ کر اس نے ہاتھ میں پکڑا چمچہ میز پر رکھا اور اپنی کرسی سے اٹھ کر کشمالہ کے کمرے کی جانب بڑھ گیا. کھٹ! کھٹ! دو بار دروازے پر دستک دینے کے باوجود اندر سے کوئی آواز نہیں آئی تو اسنے کہا. "باؤلی!!! دروازہ کھولو." وہ جانتا تھا کہ باؤلی کہنے پر وہ جواب ضرور دے گی اور ایسا ہی ہوا. "آ جائیں بھائی جان!" اندر سے کشمالہ کی آواز آئی. اسکے لہجے میں اداسی تھی. دانیال جواب ملتے ہی کمرے کے اندر آیا اور چلتا ہوا اسکے پاس آ کھڑا ہوا. "کیا ہوا ہے؟ ایسے کمرے میں منہ کیوں چھپائے بیٹھی ہیں آپ؟" دانیال نے بہت پیار سے اس سے پوچھا. کشمالہ جو اپنے بیڈ پر اپنے گھٹنوں کے گرد ہاتھ لپٹے چہرے پے اداسی سجائے بیٹھی تھی نے جواب دیا. "بھائی جان.... کچھ نہیں ہوا. بس بھوک نہیں لگ رہی آپ اور امی کھا لیں." "ارے ایسے کیسے بھوک نہیں لگ رہی. اور اگر تمہارے بغیر ہی کھانا ہوتا تو کب کا کھا چکے ہوتے. چلو نا مجھے بھوک لگ رہی ہے." دانیال نے اسکو بچوں کی طرح منانے کی کوشش کی. "تو جائیں نا!" اسنے پھر وہی بات کی. "اچھا... بتاؤ نا کیا ہوا ہے...پلیز...؟" دانیال نے جیسے اس سے منت کی. اس سے برداشت نہیں ہو رہا تھا کہ اسکی بہن اتنی پریشان ہے. وہ چند قدم مزید آگے بڑھا اور اسکے بیڈ پر، اسکے برابر میں آبیٹھا. اسنے ایک بار اپنے بھائی کی آنکھوں میں جھانکا اور پھر گویا ہوئی. "بھائی جان وہ ضحی اور عالیہ...." اسنے آج ہوئے تمام واقعات اپنے بھائی کے گوش گزار کر دیئے. "مجھے سمجھ نہیں آ رہا کہ میں ضحی سے ملنے جاؤں یا عالیہ کی بات مانوں." اسنے اپنی پریشانی بتائی. دانیال نے اسکی بات غور سے سنی پھر اسکا ہاتھ بہت نرمی سے اپنے ہاتھ میں تھاما اور کہا. "تم مجھ سے وعدہ کرو کہ میری بات مانو گی تو ہی میں تمہیں بتاؤں گا." اس نے سر اثبات میں ہلایا اور کہا. "جی بھائی جان مانوں گی." "ٹھیک ہے پھر سنو. کشمالہ دنیا میں ہر چیز کا ایک نا ایک تقاضہ ہوتا ہے. جیسے محبت کا تقاضہ ہے کہ اسکو ہمیشہ نبھایا جائے. اوقات کا تقاضہ ہے کہ اسکو کبھی بھلایا نہ جائے. وقت کا تقاضہ ہے کہ ہمیشہ اسکے ساتھ چلا جائے. مگر دوستی وہ واحد رشتہ ہے.. وہ واحد چیز ہے جس کا تقاضہ ان تمام تقاضوں سے مل کر بنتا ہے. دوستی کا تقاضہ ہے کہ ہمیشہ اسکو نبھایا جائے، اسکو کبھی بھلایا نہ جائے اور ہمیشہ اس شخص کے ساتھ چلا جائے جس سے اس خوبصورت رشتے کا جوڑ ہو. چاہے وقت کیسا بھی ہو." دانیال نے بہت پیار اور نرمی سے اسکو سمجھایا. "تو اسکا مطلب..." اسنے کچھ کہنے کے لیے اپنا منہ کھولا مگر سوچ میں پڑ گئی. "تم ضحی کے پاس جاؤ. اسکو تمہاری ضرورت ہے. کیا پتا اسکا اور عالیہ کا کوئی اور ایشو ہو." دانیال کہ کر کھڑا ہو گیا اور اسکی جانب ہاتھ بڑھایا. "چلو.. اب تو ہو گیا نا تمہارا مسلہ حل. اب چلو چلیں." اسکے نازک ہونٹوں کو ایک مدھم سی مسکراہٹ نے چھو لیا. "چلو..get up my bawli." کہ کر وہ ہنس دیا. مگر کشمالہ کی آنکھوں میں اک دم آنسو جھلملانے لگے. اسکی آنکھوں میں آنسو جمع ہوتے دیکھ دانیال پریشان ہو گیا. اسکے ماتھے پر شکنیں نمایاں ہونے لگیں. "کیا ہو گیا. سوری! مجھے نہیں پتا تھا تمہیں میرا باؤلی کہنا اتنا برا لگتا ہے. اچھا.... get up my girl. اب ٹھیک ہے." "بھائی جان... باولی کہنے پر نہیں رو رہی. وہ... ابا جان یاد آگئے تھے. وہ بھی مجھے ہمیشہ اسی طرح سمجھایا کرتے تھے. مجھے ہمیشہ آپ میں ان کی جھلک نظر آتی ہے. مگر ابھی تو بہت زیادہ......" وہ باقعدہ ہچکیوں سی رو رہی تھی. دانیال دوبارہ اسکے برابر میں آبیٹھا. "تم سے کتنی بار کہا ہے نا کہ جب ابا جان یاد آیا کریں تو ان کے لئے دعاۓ مغفرت کیا کرو. سوره فاتحہ پڑھا کرو... اور تم رو رہی ہو." دانیال کے بیڈ پے بیٹھتے ہی کشمالہ اچھل کے اسکے پاس آئی اور اسکے ساتھ جڑ کر بیٹھ گئی. دانیال اسکے سر پر ہاتھ پھیر پھیر کر اسکو چپ کروا رہا تھا. "اچھا چپ ہو جاؤ نا اب... بس کر دو." اسکے آنسو تھے کے روکنے کا نام نہیں لے رہے تھے. وہ اب بھی دانیال کے سینے پے سر رکھے رو رہی تھی. "اچھا... ادھر دیکھو.." دانیال نے اسکو خود سے الگ کرتے ہوئے اسکے چہرے کو اپنے ہاتھوں کے پیالے میں لیا اور اسکے آنسو صاف کیۓ. "جب تم روتی ہو نا تو پوری بندریا لگتی ہو. باؤلی تو پہلے سے ہو. روتے ہوئے باؤلی بندریا لگتی ہو." دانیال نے ہنستے ہوئے شوشہ چوڑا تو وہ بھی ہنس پڑی. "اب چلو اس سے پہلے کے امی کو بلانا پڑے. اور کوئی بھی پریشانی ہوا کرے تو مجھ سے ڈسکس کر لیا کرو. اوکے؟" "جی اوکے بھائی جان." دانیال نے کشمالہ کا ہاتھ پکڑ کے اسکو اٹھایا. پھر دونوں ساتھ ساتھ چلتے ہوئے کمرے سے باہر آگئے.

**********

اگلے دن کالج میں اسکی اور عالیہ کی کسی بھی قسم کی کوئی بات نہیں ہوئی. بس جب وہ وین سے اترنے لگی تو عالیہ نے اسکو مخاطب کیا. "آج تک ایسا کبھی نہیں ہوا کہ میں اور تم پورا دن ساتھ ہوں پر ایک لفظ بھی بات نہ ہوئی ہو." عالیہ کے لہجے میں کہیں اداسی تھی تو کہیں غصہ چھپا تھا. "ہاں ٹھیک کہا. اور آج تک ایسا بھی کبھی نہیں ہوا کہ تم نے ضحی کے لیے اتنے برے الفاظ نکلے ہوں اپنے منہ سے. اب یہ مت کہنا کہ میں ضحی کی سائیڈ لے رہی ہوں. تم بھی مجھے اتنی ہی عزیز ہو جتنی کہ ضحی. مگر... تمہاری باتوں نے مجھے واقعی بہت دکھی کیا ہے." کہ کر وہ وین سے اتر گئی اور پیچھے مڑ کر دیکھنے کی زحمت بھی نہ کی. بس اپنے گھر کی جانب چلتی چلی گئی.

**********

بھائی جان! اٹھیں نا! اور کتنی دائر تک سوتے رہیں گے. بھئی آپ نے کہا تھا آپ چار بجے اٹھ جائیں گے اور مجھے ضحی کے گھر چھوڑ کے آئیں گے. اور آپ ہیں کہ اٹھ ہی نہیں رہے." اسنے دانیال کے شانے کو زور زور سے ہلاتے ہوئے کہا. "ہم....امممم... کیا ہے یار. اٹھ رہا ہوں نا. ابھی جاؤ." اسنے کشمالہ کا ہاتھ پیچھے کرتے ہوئے کہا. "جی نہیں... آپ آدھے گھنٹے سے یہی کہ رہے ہیں." اسنے دانیال کی بات کو رد کرتے ہوئے کہا. "اب خود ہی اندازہ لگا لو کہ کب سے میرا خون چوس رہی ہو." اسنے اپنی ادھ کھلی آنکھوں سے کشمالہ کو دیکھتے ہوئے کہا. جس کے جواب میں کشمالہ کھڑی ہوئی اور کمرے کی تمام لائٹس کھول دیں. دانیال نے پاس پڑی گدی اٹھائی اور اپنے منہ پر رکھ لی. "باؤلی چڑیل!" جب دیکھا کہ بھائی نہیں اٹھ رہا تو اسنے ماں کو آواز دی. "امی! بھی جان اٹھ نہیں رہے!" "دانیال! بیٹا اٹھ جاؤ!" بیٹی کی آواز کان میں پڑی تو انہوں نے دانیال کو پکارا. "جی امی اٹھ گیا ہوں." اسنے جواب دیا ساتھ ہی گدی اٹھا کے بہن کو دے ماری. جس لمحے سر پر گدی لگی اسی لمحے اس نے مڑ کر بگڑے نقوش سے دانیال کو دیکھا. "سڑے ہوئے آلو!" اسنے بھی اپنے بھائی کو ایک نام سے نوازہ. اور زمین پر پڑی گدی اٹھا کر واپس دانیال کو دے ماری. "موٹی بھنس!" دانیال نے واش روم کا رخ کیا.

**********

بلاخر کشمالہ شام ٦ بجے ضحی کے گھر پہنچ گئی. علیک سلیک کے بعد کشمالہ نے اس سے اسکی طبیعت کی بابت سوال کیا. "ضحی کتنی کمزور ہو گئی ہو تم. الله میرا تو دل ہی بیٹھا جا رہا ہے تمہیں ایسی حالت میں دیکھ کر. اتنی دبلی پتلی... اور رنگ دیکھو تم اپنا.. کتنا گر گیا ہے... کون یقین کرے گا کہ یہ وہی ضحی ہے جو ایک زمانے میں محفلوں کی جان ہوا کرتی تھی." اسکے لہجے میں ہمدردی تھی. "ہم.. بس الله کی جو مرضی... یہ بتاؤ عالیہ کہاں ہے؟ وہ کیوں نہیں آئی؟" بات ایک بار پھر گھما دی گئی."ہاں وہ... وہ کہیں مصروف تھی.. بس اس لیے." اسنے حقیقت کو چھپانا ہی بہتر سمجھا. "اچھا... اور بتاؤ زندگی میں کیا چل رہا ہے..." "زندگی... میری تو ویسی ہی ہے. پر تم بتاؤ تمہاری زندگی میں اتنا چینج کیسے آگیا؟" ضحی کو کشمالہ کے اس سوال پر اپنا وقت یاد آگیا. جب اس نے صونیہ میں اتنا بدلاؤ دیکھا تھا تو اس کی بھی کچھ ایسی ہی کیفیت تھی جیسی اس وقت کشمالہ کی تھی. وہ ہلکا سا مسکرائی اور پھر گویا ہوئی. اسنے ڈاکٹر عبدرحمان، صونیہ اور اپنے دل میں اٹھتی بدلنے کی چاہت کے بارے میں سب کچھ کشمالہ کے گوش گزار کر دیا. "واؤ! مطلب تم نے جو چاہا وہ پا لیا. رائیٹ؟" اسنے اپنی بات ک تصدیق چاہی. "ہاں.. میں نے مرنے سے پہلے اپنے لیے ہدایت مانگی تھی... اپنے گناہوں سے توبہ چاہی تھی. کیا پتا الله نے مجھے معاف کر دیا ہو. وہ تو رحمان ہے نا." کشمالہ مسکرائی اور کہا. "ہاں بلکل.... تم.. تمہیں اتنا پرسکون میں نے آج پہلی بار دیکھا ہے." کشمالہ نے اسکے چہرے پر نمایاں ہوتے سکون کو بغور دیکھا اور کہا. کچھ دیر کمرے میں خاموشی کا راج رہا پھر کشمالہ نے ضحی سے ایک اور سوال کیا. "تم نے خود کو اتنا بدل لیا... hate comments کا سامنا تو کرنا پڑا ہو گا نا؟" اسکے ذہن میں سوال در سوال آرہے تھے. "ہاں.. تھے کچھ لوگ. پر جانتی ہو.. اگر ارادہ پختہ ہو، تو انسان راہ میں آنے والی ہر دیوار کو گرا دیتا ہے." ضحی نے مختصر مگر پراثر جواب دیا. "تم سے ایک ریکویسٹ کروں؟" "ہاں ہاں بولو یار." "میں چاہتی ہوں کہ جو کچھ میں نے اچھا سیکھا ہے وہ تم لوگوں کو بھی بتاؤں. مطلب تمہیں اور عالیہ کو." کشمالہ نے خود کو اسکی بات سے متاثر ہوتے پایا تو کہا. "ہاں.. ضرور. تم اپنا فرض پورا کرو. تم ہمیں بتاؤ. عمل کرنا ہمارا کام ہے." کشمالہ کا جواب سن کر اسکے خشک ہونٹوں پر ایک مسکراہٹ سمٹ آئی. وہ لوگ کافی دیر تک باتیں کرتے رہے. کھانا اور نماز،صرف دو چیزوں کا وقفہ آیا ان کی گفتگو میں. ضحی نے اسکو وہ تمام کتابیں دکھائیں جو آج کل وہ پڑھ رہی تھی. کشمالہ کا دل چیخ چیخ کر اس بات کی گواہی دے رہا تھا کہ "ہاں، واقعی ضحی کی باتیں واقعی بہت دلچسپ، خوبصورت اور سکون

بخشنے والی تھیں."

**********

٣ سال بعد

وقت گزرتا گیا، ضحی کی بیماری بد سے بدتر ہوتی چلی گئی. وہ تقریباً موت کے دھانے پر کھڑی تھی. ضحی کی باتوں کا کشمالہ پر اچھا خاصا اثر پڑا تھا. ایک طرف ضحی اسکو نیکی کی جانب راغب کرنے کی کوشش کرتی تو دوسری طرف عالیہ اسکو سمجھاتی کہ یہ تمام باتیں فضول اور بکواس ہیں. ظاہری طور پر تو وہ عالیہ کی بات پر سر جھکا کر کہتی کہ "ہاں بلکل صحیح کہ رہی ہو تم." مگر انسان پر اثر وہی چیز کرتی ہے جو اسکے دل میں ہوتی ہے. باہر سے چاہے وہ جو کچھ بھی سوچ لے.

**********

واؤ! that was great کشمالہ!" "تم نے بہت اچھی ایکٹنگ کی." "دل خوش کر دیا تم نے کشمالہ." "great loving it!" ایسے ہی تعریفی کلمات اسکی سماعت سے ٹکرا رہے تھے. وہ خود بھی بہت خوش تھی. اسکے اسٹیج سے نیچے اترنے کے بعد سے ہی تمام طلباء طالبات، اساتذہ اسکے پیچھے پیچھے تھے. ہر کوئی اسکی تعریف کر رہا تھا. "شاندار... کمال کر دیا تم نے یارم!" اسکے برابر چلتی عالیہ نے اسکو سراہتے ہوئے اسکے کندھے پر ہاتھ مارا. کشمالہ کو لوگوں سے باتیں کرتے دیکھا تو خاموشی سے وہ ہجوم سے نکل گئی. "ہاں، کام ہو گیا راحم؟" عالیہ نے ایک درخت کی آوٹ میں چھپتے ہوئے کال ملائی. کال رسیو ہونے پر اسنے دوسری جانب موجود شخص سے سوال کیا. "جی ماڈم. کام ہو گیا ہے." راحم نے تابعداری سے جواب دیا. "گریٹ!" کہ کر عالیہ نے ایک زور دار شیطانی قہقہا لگایا. لوگوں کے ہجوم سے دور ہونے کی وجہ سے کسی نے اسکی کال یا بات چیت کو نہیں سنا. نہ ہی کسی کو اسکی غیر موجودگی کا احساس ہوا. پر ٢ آنکھیں تھیں جن کا فوکس عالیہ پر لاکڈ تھا.

**********

عالیہ کی کال کو مکمل طور پر ریکارڈ کر لیا گیا تھا. اور یہ کارنامہ کرنے والا شخص اب واپسی کی غرض سے اپنی گاڑی کی جانب بڑھ گیا. "سر، کیا سب ٹھیک ہے؟ میری ضرورت ہے تو میں ابھی آجاؤں؟" جیسے ہی وہ شخص گاڑی میں بیٹھا، اسکی گرے پینٹ کی دائیں جیب میں پڑا موبائل بج اٹھا. کال رسیو کی تو مقابل کی پریشان آواز سنائی دی. "علی تم سے کتنی ہزار بار بکواس کی ہے میں نے... فاتح عالم اپنے کام خود کرتا ہے. سمجھے!" اسکی آواز میں بےپناہ غصّہ تھا. صاف ظاہر تھا کہ وہ بہت پریشان ہے. اسکو کوئی بات بری لگی تھی. کال کاٹ کر اسنے برابر والی سیٹ پر موبائل اچھال دیا. اسنے اپنی گردن پر اپنا دائیاں ہاتھ پھیرا پھر ایک ٹھنڈی آہ بھری اور گاڑی سٹارٹ کی. بجلی کی سی رفتار سے گاڑی کو بھگا کر وہ تھانے تک لایا. اسکو آتا دیکھ کر وہاں موجود تمام سپاہیوں نے اسکو سلیوٹ کیا. اسنے ہلکا سا سر کو خم دیا اور اپنے کمرے میں آگیا. "کوئی اتنا گھٹیا بھی ہو سکتا ہے... صرف ایک تھپڑ کا اتنا بڑا بدلہ..." اسنے سوچا ساتھ ہی اپنی کرسی پر آبیٹھا. "سر یہ....." بغیر دستک دئیے کوئی اسکے کمرے میں چلا آیا. اسنے نظریں اٹھا کر دیکھا تو وہ اسی کا ایک سپاہی تھا. اسنے سامنے رکھی ٹیبل پر ہاتھ مارا. اتنی زور سے کہ کمرے کی دہلیز پر کھڑا وہ سپاہی کانپ اٹھا. "میں کتنی بار بکواس کر چکا ہوں کہ میرے کمرے میں بغیر دستک دئیے مت آیا کرو... پر تم لوگوں کو کوئی بات سمجھ ہی نہیں آتی ہے." وہ خاصی زور سے چیخا تھا. "سر... میں وہ پانی لیا تھا.." اس سپاہی کا اشارے ہاتھ میں پکڑے پانی کے گلاس کی طرف تھا. "میں نے مانگا...؟" وہ ایک بار پھر غرایا. سامنے موجود شخص نے کچھ کہنے کے لیے منہ کھولا مگر وہ دوبارہ بول پڑا. "نہیں بتا دو.. مانگا میں نے..." "نو سر.." "تو بس پھر دفع ہو جاؤ یہاں سے..." حکم ملتے ہی وہ شخص "سوری سر" کہ کر کمرے سے باہر نکل گیا. "یار...... کیا ہو رہا ہے مجھے.." اسنے خود سے سوال کیا. اپنی ہلکی بڑی شیو پر ہاتھ پھیرتے ہوئے اسنے اپنے دماغ میں ایک لاحۂعمل کو جنم دیا. "ہم... اس لڑکی کو بچانا ہی پڑے گا."

**********

افتخار صاحب اپنا موبائل ہاتھ میں لیے اس پر کچھ دیکھ رہے تھے. دراصل وہ فیس بک پر اسکرولنگ کر رہے تھے. وہ والدین جن کی بیٹی، جن کی اکلوتی اولاد موت کے اس قدر قریب ہو ان کی حالت کیسی ہو گی. افتخار صاحب اور رافعہ کا نہ کھانے میں جی لگتا تھا، نہ ہی پینے میں اور نہ ہی کسی اور چیز میں. ہر وقت بس ضحی کی فکر میں گھلتے رہتے. اسکرولنگ کے دوران انکی نظر ایک پوسٹ پے جا اٹکی. وہ انکی ہی ایک میموری تھی. وہ ایک تصویر تھی. جس میں ایک ننھی منھی قریب چار سال کی بچی ایک گلابی فراک پہنے کھڑی تھی. شانوں تک کٹے سیدے بالوں میں گلابی ہیربینڈ لگا تھا. اسکے چہرے پے ایک خوبصورت مسکراہٹ تھی. آنکھوں میں چمک تھی. صاف ظاہر تھا وہ بچی بہت خوش تھی. کچن سے آنتیں رافعہ نے افتخار صاحب کو کسی چیز کو بغور دیکھتے اور پھر مسکراتے دیکھا تو ان کے قدموں کی رفتار ذرا تیز ہوئی. انھیں حیرت ہوئی تھی. وہ خوشی پر مبنی حیرت تھی. چلتے چلتے وہ افتخار صاحب کے پاس آئیں اور انکے برابر صوفے پے آبٹیھں مگر افتخار صاحب کو اس بات کا ذرا بھی احساس نہیں ہوا. وہ کسی گہری سوچ میں گم تھے. انکی آنکھوں کے سامنے ضحی کی پیدائش سے لے کر اسکی جوانی تک کے تمام لمحات کسی فلم کی طرح چل رہے تھے. اپنی سوچوں اور یادوں کی دنیا سے وہ تب واپس آئے جب رافعہ نے انکو مخاطب کیا. "افتخار صاحب کیا دیکھ کر مسکرا رہے ہیں." انہوں نے صرف موبائل کا رخ رافعہ کی جانب کر کے انہیں وہ تصویر دکھائی مگر بولے کچھ نہیں. تصویر کی دیکھ کر رافعہ کی آنکھوں میں آنسو جھلملانے لگے. ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی. ایک زخمی مسکراہٹ. ایک آنکھ سے آنسو نکل کر چہرے پر لڑھکتا ہوا انکے ہاتھ پر جا گرا. ابھی دوسری آنکھ سے گرنے ہی والا تھا کہ اوپر سے ضحی کی خاص ملازمہ جو اسکی خاص دیکھ بھال کے لیے رکھی گئی تھی کی آواز آئی. "بیگم...بببیگم صاحبہ... جججلدی آئیں!" رافعہ اور افتخار صاحب ملازمہ کی آواز پر یکایک اپنی نشستوں سے اٹھے اور دوڑتے ہوئے اوپر پہنچے. "کیا ہوا؟!" بے حواسی کے عالم میں دونوں نے ایک ساتھ پوچھا اور ضحی کی جانب لپکے. "ضحی! بیٹا؟" رافعہ نے اسکی پیشانی اور بالوں پر ہاتھ پھیرا اور کہا. "ام..ام..امی..کش..کشمالہ..." ضحی نے بمشکل چند الفاظ جمع کر کے اپنی ماں کو بتایا کہ وہ چاہتی ہے کہ کشمالہ کو بلایا جائے. اسکی حالت غیر ہوتی جا رہی تھی. جسم پے جگہ جگہ بی انتہا سیاہ دھبے موجود تھے. آنکھوں کے گرد پڑے گہرے کالے حلقے، پیلی ہوتیں آنکھیں اور خشک ہونٹ. "ہاں..ہاں.." کہ کر رافعہ پیچھے کو ہوئیں اور کشمالہ کو کال ملائی.

**********

"یار تمہیں گرمی کیوں نہیں لگتی اس میں؟" اسنے کشمالہ کے برقع کی جانب اشارہ کرتے ہوئے اس سے سوال کیا. "بھئی میں پہلے بھی چادر تو لیتی ہی تھی نا." "ہاں تو وہ صرف چادر تھی. اس پاگل کی باتوں میں آکر تم نے یہ پہنںا شروع کر دیا." عالیہ کے لہجے میں حقارت تھی. "چپ ہو جاؤ تم. او ور مت ہو. جہاں تک میرے پردے کا تعلق ہے تو وہ مجھے الله پاک نے ہدایت دی جبھی میں نے کرنا شروع کیا. ضحی صرف ایک وسیلہ ہے. اور ہاں... اسکے بارے میں الٹی سیدھی بکواس مت کیا کرو." کشمالہ نے انگلی اٹھا کر اسکو وارن کرنا چاہا. "ہونہہ! تم عجیب ہو." عالیہ نے کہ کر اسکو عجیب سی نظروں سے دیکھا. وہ دونوں ساتھ ساتھ ہی کلاس سے نکلے تھے. اور اب دوسری کلاس لینے کے لیے جا ہی رہے تھے کشمالہ کا فون بج اٹھا. بیگ سے موبائل نکالا تو اس پر "ضحی مدر" جگمگا رہا تھا. "ہیلو کشمالہ بیٹا کہاں ہو تم؟" کال رسیو کر کے موبائل کو کان سی لگایا تو رافعہ کی پریشان آواز سنائی دی. "آآنٹی میں.. میں یونی میں ہی ہوں.. کیوں کیا ہوا؟ سب خیر تو ہے؟" رافعہ کی پریشانی کو وہ کسی حد تک بھانپ گئی تھی. "بیٹا جلدی سے یہاں آجاؤ. ضحی تمہیں بہت یاد کر رہی ہے. اسکی حالت بہت خراب ہے.." ان کی آواز لڑکھڑا گئی. معلوم ہوتا تھا کہ وہ رو رہیں ہیں. "جی.. جی آنٹی میں آ رہی ہوں. آپ پریشان نہ ہوں." عالیہ اور ضحی کی اب صرف نام کی ہی دوستی رہ گئی تھی. مہینوں میں ایک بار کال کر کے وہ ضحی کا حال احوال پوچھ لیتی وہ بھی ایسے جیسے اس پر احسان کر رہی ہو. کال کاٹ کر اس نے جلدی جلدی عالیہ کو سب کچھ بتایا. "مگر اس طرح...؟ ابھی تو بہت امپورٹنٹ کلاس ہے.. کیا تم وہ مس کرنے والی ہو؟" "ہاں! کرنی ہی پڑے گی. مشکل وقت میں ایک دوست ہی اپنے دوست کے کام آتا ہے. خدا حافظ!" کہ کر وہ وہاں سے چلی گئی. پھر جیسے تیسے کر کے وہ ضحی کے گھر پنہچی. "بوا! ضحی اور آنٹی کہاں ہیں؟" گھر میں داخل ہو کر اسکا سامنا بوا سے ہوا جن سے اسنے ضحی کے بارے میں پوچھا. ان کے بتانے پر وہ سیدھا اوپر ضحی کےکمرے میں آئی. رافعہ بے آواز رو رہیں تھیں اور افتخار صاحب انکے برابر میں گھٹنوں کے بل بیٹھے انہیں دلاسے دے رہے تھے. "ضحی.. ضحی دیکھو میں آگئی ہوں یار!" ضحی نی جب کشمالہ کو اپنے برابر میں بیٹھے دیکھا تو اسکی آنکھوں میں خوشی نمایاں ہونے لگی. "کش.. کشمالہ.. تم کہاں تھیں؟ اتنے دنوں سے..؟" اس نے بری مشکل سے اٹکتے ہوئے کہا. "مجھے معاف کر دو... میں نہیں آسکی تھی. پر اب تو میں آگئی ہوں نا. تم مجھ سے پلیز ناراض مت ہو." اس نے جسے التجا کی. "میں تم سے ناراض نہیں ہوں.. میں ہو بھی نہیں سکتی.. بس مجھ.. مجھ سے ایک وعدہ کرو.." ضحی کی بات سن کر اسکی آنکھیں نم ہونا شروع ہو گئیں. "ہاں بولو..." "کش.. کشمالہ.. مجھ.. مجھ سے وعدہ کرو.. وعدہ کرو کہ تم نے آج تک جو کچھ بھی سیکھا ہے وہ کبھی نہیں بھولو گی... اپنے نفس کی تسکین کی خاطر.. اپنے دل کی خواہشات کی خاطر کبھی... کبھی بھی اپنے اس پردے کو... اپنے اس برقع کو.. اپنے اس نقاب کو اور اپنے ایمان کو کبھی فراموش نہیں کرو گی..." وہ بمشکل بول پائی. اس اذیت ناک کھانسی نے اسکا بولنا تک محال کر دیا تھا. " ضحی پلیز... ایسا مت کہو تمہیں کچھ نہیں ہوگا." کشمالہ نے اسکا ہاتھ لیا. "نہیں.. نہیں کشمالہ میرے پاس زیادہ وقت نہیں ہے... پلیز وعدہ کرو. ضحی کی اپنی آنکھوں سے زارو قطار آنسو بہہ رہے تھے. اسکے زور دینے پر کشمالہ نے اس سے وعدہ کر لیا. مگر وہ غلطی کر چکی تھی. وہ اس بات سے انجان تھی کہ غلطی کرنے پر انسان کو اسکا ہرجانہ بھگتنا ہی پڑتا ہے. "ضحی پلیز کچھ تو کہو.. کیا ہو رہا ہے تمہیں..." وہ بلکل خاموش تھی. اسکا سانس رکنے لگا تھا. اسکو دیکھنے سے پتا چل رہا تھا کہ وہ بے پناہ تکلیف میں ہے. مگر اسکے چہرے پر نمایاں ہوتی تسکین کو کشمالہ نے بغور دیکھا تھا. "ضحی؟!؟!؟!" ضحی نے بمشکل اپنے لبوں سے کلمہ ادا کیا. اسکی آنکھیں آھستہ آھستہ ہوتی چلی گئیں. ضحی اس دارفانی سے کوچ کر چکی تھی. اسکا وجود اب مکمل طور پر بےجان ہو چکا تھا. رافعہ، افتخار صاحب اور کشمالہ تینوں اسکے بےجان وجود کے ارد گر موجود تھے. ان کے آنسو تھام نہ سکے اور بہتے چلے گئے. کشمالہ کے کان جیسے بند ہو گئے تھے. اسے کسی چیز کا ہوش نہ رہا.اسکی دوست نے اسکے ہاتھوں میں دم توڑا تھا. دوستی جیسا خوبصورت رشتہ اب کشمالہ کے لیے اٹھا لیا گیا تھا. ایک آخری بار کشمالہ نے اس کے بائیں ہاتھ کی کلائی کو تھما اور اسکی دھڑکن محسوس کرنے کی کوشش کی. مگر کچھ نہیں.. ضحی کا دل خاموش تھا بلکل اسکی اپنی طرح. انسان کی زندگی کے تکلیف دہ لمحات میں سے ایک لمحہ وہ ہوتا ہے جس لمحے انسان اپنے سچے دوست کو کھو دیتا ہے.

**********

"اسلام علیکم بھائی!" مریم نے اپنے بھائی کو گھر میں داخل ہوتے دیکھا تو سلام کیا. گھر کی چابی اسکے بھائی کے پاس ہی ہوتی تھی تو دستک دینے کی ضرورت نہیں ہوئی. "وعلیکم اسلام..." جلدی جلدی کہ کر وہ لاؤنج سے ہوتا ہوا اپنے کمرے میں آگیا. مریم کو کافی حیرت ہوئی. "ایسا کیا ہوا ہے جو بھائی نے مجھ سے ٹھیک سے بات بھی نہیں کی...؟" اسنے سوچا اور اپنے بھائی کے پیچھے ہولی. "بھائی.. کیا ہوا ہے؟ سب ٹھیک تو ہے؟" اسنے فاتح کے کمرے میں آ کر اس سے سوال کیا. "مریم پلیز.. جست لیو می الون(just leave me alone)" اسنے پیچھے مڑ کر جواب دیا اور واپس پلٹ گیا. ساتھ ہی جیب میں سے موبائل نکالا، اسکو سایلینٹ کیا اور سائیڈ ٹیبل پر رکھ دیا. "پر بھائی آپ.." مریم کو اپنے بھائی کی فکر لاحق ہوئی. "مریم میں نے کیا کہا ہے... میں تھوڑی دیر آرام کرنا چاہتا ہوں." "اوکے!" کہ کر وہ کمرے سے نکل آئی. "الله جانے بھائی کو کیا ہوا ہے.." اس نے سوچا.

**********

وہ لاؤنج میں بیٹھی موبائل سرفنگ کر رہی تھی کہ ٹیلی فون بج اٹھا. تیسری گھنٹی پے اس نے ریسیور اٹھا لیا. "اسلام علیکم.. یہ سر فاتح کے گھر کا نمبر ہے؟" دوسری طرف موجود شخص نے پوچھا. "جی.. آپ کون؟" اس نے کہا. "ماڈم آپ سر کو کہیں دلاور قتل کیس کے بارے میں کچھ بات کرنی ہے." اس شخص نے کہا. "اچھا... میں کہتی ہوں.." فاتح کو اپنے کمرے میں بند ہوئے ٢ گھنٹے ہو چکے تھے. "ویسے بھی بھائی کو اٹھانا ہی تھا.. اب تو وجہ بھی مل گئی." وہ سوچ کر اپنی نشست سے اٹھی اور فاتح کے کمرے کی جانب بڑھ گئی. "بھائی.." دستک دے کر اس نے فاتح کو آواز دی. کچھ لمحے بعد دروازہ کھلا. سامنے فاتح کھڑا تھا. وہ سفید قمیض شلوار میں ملبوس تھا. اسکی آنکھیں سرخ ہو رہیں تھیں. لگتا تھا جیسے کافی دیر سے جاگ رہا ہو یا کافی دیر رویا ہو. "ہاں.. بولو کیا ہے؟" اسنے کہا. "بھائی.. وہ آپکے لیے فون ہے...." مریم نے کہا. "کس کا؟" وہ جانتی تھی یہ سوال وہ نہیں کرے گا. آج تک اس کے لیے بہت سے فون آۓ مگر کبھی وہ یہ نہیں پوچھتا تھا بس خود فون کے پاس پہنچ جاتا تھا. اور آج بھی ایسا ہی ہوا. "ہاں ہیلو..." فاتح کافی دیر تک فون پے بات کرتا رہا. جب واپس اپنے کمرے میں آیا تو اس نے اپنے بیڈ پے مریم کو بیٹھے دیکھا. وہ اسکو سوالیہ نظروں سے دیکھ رہی تھی. "کیا...؟ ایسے کیا دیکھ رہی ہو؟.. کچا چبانا ہے؟" کہ کر وہ ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے آکھڑا ہوا. "بھائی.. آپ جانتے ہیں میں آپکو ایسے کیوں دیکھ رہی ہوں.." اس کے لہجے میں شکوہ تھا. "نہیں.. مجھے تو نہیں پتا..." اسنے کہا. وہ اب اپنی قمیض کی آستینوں کو کونیوں تک لپیٹ رہا تھا. "بھائی.. زیادہ بنیں مت... بتائیں کیا ہوا ہے.." فاتح نے ایک ٹھنڈی آہ بھری اور چلاتا ہوا اسکے برابر میں آبیٹھا. "یار دیکھو.. یہ وہی مسلہ ہے جو بابا کے زمانے سے ہمیں پریشان کر رہا ہے." مریم اسکی بات کو بغور سن رہی تھی. "اب کیا ہوا؟ جہاں تک مجھے یاد ہے..... بٹ صاحب کا تو انتقال ہو گیا ہے نا... تو اب...؟" اسنے سوچتے ہوئے کہا. "ہم.. مگر انکی بیٹی.. انکی بیٹی اب اپنے باپ کا کام سمبھال رہی ہے... and you know what..." "what؟!" "اب ان کی بیٹی... ایک لڑکی کے پیچھے پڑ گئی ہے.. اور سب سے زیادہ تکلیف دہ بات وہ لڑکی اسکی دوست ہے.." "واٹ! دوست ہے؟ مگر وہ اسکے ساتھ کیا کر رہی ہے اور کیوں؟" مریم کے ذہن میں نئے نئے سوال جنم لے رہے تھے. "تم جانتی ہو وہ وہی کرتی ہے جو اسکا باپ کرتا تھا. لوگوں کو بلیک میل.. اور وجہ.. وجہ یہ ہے کہ اسکی دوست نے اسکو تھپڑ مارا تھا.." اسکی بات سنتے ہی مریم کی آنکھیں مکمل طور پر کھل گئیں. "مگر صرف ایک تھپڑ کا اتنا بڑا بدلہ؟ OMG... اتنی بری لڑکی سے اس معصوم نے دوستی کی ہی کیوں...؟" اسنے ایک اور سوال کیا. "اسکی حقیقت، اسکی ینیورسٹی میں کوئی نہیں جانتا... کافی ماہر ہے وہ ان تمام کاموں میں.. آخر کو عادل بٹ کی بیٹی ہے.. اس نے بھی ویسے ہی اپنی شناخت چھپائی ہوئی ہے جیسے اسکے باپ نے چھپائی ہوئی تھی. اسکی زندگی میں بھی اور اب اسکی موت کے بعد بھی چند ایک ہی لوگ ہیں جو اسکو جانتے ہیں.. عالیہ بٹ بھی اپنے باپ کی طرح ایک گھٹیا انسان ہے... بابا سے وعدہ کیا تھا میں نے کہ میں انکا بدلہ ضرور لوں گا." شدت جذبات سے اسکی مٹھیاں بھیںچ گئیں. "بھائی.. اب کیا کریں گے. پلیز.. جو بھی کریں دیکھ بھال کے کرئیے گا." "ہم.. پر ابھی تو مجھے دلاور قتل کیس پر کام کرنا ہے.. ایک کام مکمل ہو گا تو ہی آگے بڑھوں گا.." وہ ہلکا سا مسکرایا. "آپ کہیں جا رہے ہیں..؟ پھر سے؟" اسکے لہجے میں پریشانی تھی. فاتح کے اٹھنے پر اسنے پوچھا. "ہاں.. کام ہے.. دعا کرنا کہ جو میں کرنا چاہتا ہوں وہ کر سکوں." کہ کر اسنے اپنا موبائل اٹھایا. "اپنا اور گھر کا خیال رکھنا. الله حافظ!" قریب آکر اسنے مریم کے سر پر بہت پیار سے ہاتھ پھیرا اور کمرے سے باہر نکل گیا.

**********

ضحی کے انتقال کو ٣ روز گزار گئے تھے مگر کشمالہ اب بھی اسی لمحے میں موجود تھی جس لمحے اس نے اپنی دوست کو کھویا تھا. اسنے موت کو بے انتہا قریب سے دیکھا تھا. اس نے وہ بے بسی دیکھی تھی جس سے ایک انسان کا موت کے وقت سامنا ہوتا ہے. اسکی نظروں کے سامنے بار بار ضحی کا چہرہ آ رہا تھا. کبھی مسکراتے ہوئے تو کبھی بے انتہا تکلیف سہتے ہوئے. سفید دریوں پر بیٹھے لوگ با آواز بلند قرآن کے مختلف پاروں کی تلاوت کر رہے تھے. کشمالہ نے دوسری بار یہ تکلیف سہی تھی. یہ دوسری بار تھا جب اسکو اپنے کسی بہت عزیز سے جدا ہونا پڑا تھا. آج اس نے اپنے دل میں فیصلہ لیا تھا کہ "پہلی بار میں ابا جان کی وفات پر روئی تھی اور اب آخری بار ضحی کی وفات پر روئی ہوں. اب بس بہت ہو گیا. مجھے خود کو مضبوط کرنا ہو گا. اب کوئی رونا دھونا نہیں..." مگر وہ اس بات سے انجان تھی کہ ابھی اسکے مقدر میں بہت سارے آنسو موجود ہیں. اسنے کمرے کے بیچ میں رکھی میز پر سے ایک پارہ اٹھایا اور کھول کر اسکو پڑھنا شروع کیا. ابھی اس نے تعوز، تسمیہ ہی پڑھی تھی کہ اسکے موبائل پر میسج آیا. ٹڑن! ٹڑن! یکایک دو تین میسجز آۓ تھے. اسنے پہلے تو نظرانداز کیا مگر جب ایک ساتھ اتنے میسجز اے تو اسنے موبائل اٹھایا اور کھول کر دیکھا. وہ وہاٹس ایپ میسجز تھے. دو عدد تصاویر، ایک ویڈیو اور دو پیغامات اسکو ابھی ابھی موصول ہوئے تھے. تصاویر اور ویڈیو کے نیچے کچھ عجیب قسم کے میسجز تھے. ان میں لکھا تھا. "پہلے ویڈیو دیکھو اور پھر پوری بات تمہاری سمجھ میں آجائے گی." اسنے ایسا ہی کیا. والیوم بند کیا اور پھر ویڈیو دیکھنا چاہی. اسکو دیکھ کر اسکے حواس ایک دم باختہ ہو گئے. وہ اسکے اپنے ٹیبلو کی ویڈیو تھی. جس میں اسکی شکل، اسکا وجود اور اسکے دکھائے گئے تمام جوہر قید تھے. ابھی ویڈیو کے چند منٹ ہی گزرے تھے کہ اسنے اسکو بند کیا اور نیچے لکھے میسجز کو پڑھنا شروع کیا. "پیاری کشمالہ! اگر اپنی عافیت، خیریت اور عزت کی سلامتی چاہتی ہو تو اس جگہ پندرہ لاکھ لے کر پرسوں شام ٦ بجے پہنچ جانا.... ورنہ... سب ختم....ہاہاہا!" اور نیچے ایک جگہ کا اڈریس لکھا تھا جس سے وہ ناواقف تھی. ظاہر تھا کہ وہ ایک دھمکی تھی. اے-سی کی وجہ سے کمرے میں اچھی خاصی خنکی بھری تھی مگر پھر بھی اسکی پیشانی

پسینے سے تر تھی. جیسے تیسے کر کے وہ اپنی طبیعت خرابی کا بہانہ بنا کر بلآخر چار دن بعد ضحی کے گھر سے روانہ ہوئی. اپنے گھر وہ خود ہی پہنچ گئی جس پر دانیال نے اسکو اچھی خاصی جھاڑ پلائی. "مجھے نہیں کہ سکتیں تھیں." دانیال نے بظاھر سختی سے مگر ہلکی آواز میں کہا.ئی "بھائی جان... وہ مجھے لگا تھا کہ آپ آفس میں ہونگے.. اس لئیے...." اس نے پہلے سے کوئی بہانہ سوچ نہیں رکھا تھا. بس جو اس وقت منہ میں آیا کہ دیا. "اچھا.....؟ مجھ سے فضول باتیں مت کرو.. سچ بتاؤ." دانیال نے اسکی جھکی نظروں کی وجہ جاننے کی کوشش کی. "بھائی جان میں بہت پریشان ہوں.. پلیز لیو می الون." اس نے اداسی سے کہا. "ہم.. ٹھیک ہے..." دانیال نے اسکی بات کو سمجھا اور کمرے سے باہر آگیا. "آرام کرو...!" کہ کر اسنے دروازہ بند کر دیا. "اوہ مرے خدایا میں کیا کروں؟" اسنے کہا اور اپنا سر ہاتھوں میں گرا دیا. "میں امی، بھائی جان... اور ضحی... ضحی کو روز قیامت کیا منہ دکھاؤں گیں." اسنے سوچا اور بےچینی سے ادھر ادھر دیکھنے لگی. "یہ میں نے کیا کر دیا. میں کل شام تک پندرہ لاکھ روپے کہاں سے لاؤں گیں. میری مدد کر میرے مالک! اوہ... الله مجھے بچا لے!!!" وہ زیرلب خود سے باتیں کر رہی تھی. وہ مدد کے لیے اپنے مالک کو یاد کر رہی تھی. وہ الله سے معافی مانگنا چاہتی تھی. اپنے غلطی کرنے پر پچھتا رہی تھی. اسکی آنکھوں سے زاروقطار آنسو بہنے لگے. وہ کچھ لمحوں بعد اپنی جگہ سے اٹھی، سائیڈ ٹیبل پر رکھی جائے نماز اٹھائی اور اسکو زمین پر بچھایا. واش روم میں جاکر وضو کیا اور پھر سلیقے سے اپنے چہرے کے گرد اپنی نماز کی چادر لپٹی. اب وہ اپنے رب کے حضور پیش تھی. اسنے نماز عصر ادا کی. سلام پھیر کر وہ دوبارہ سجدے میں گر گئی. "میرے الله..." اسکے آگے وہ کچھ کہ نہ سکی. بس روتی چلی گئی. تھوڑی دیر بعد ہمت کر کے اسنے اپنے رب کے آگے اپنی فریاد رکھی. "میرے مالک... میرے آقا... مجھے بچا لے! میں نے غلطی کی ہے بلکہ... بلکہ میں نے گناہ کیا ہے... میں مانتی ہوں.. پر میرے مولا تو تو رحمان ہے نا... مجھے بچا لے! میں کچھ بھی کر لوں پر کل شام تک پندرہ لاکھ روپے نہیں جمع کر سکتی. میں کسی سے کوئی شکوہ نہیں کرتی... کسی سے کچھ نہیں مانگتی میرے رب! بس تو میری، میری عزت کی اور میرے گھر والوں کی عزت کی حفاظت فرمانا میرے الله!!!" کہ کر وہ بے انتہا روئی. اسکے دونوں گال آنسوں سے مکمل طور پر بھیگ چکے تھے. مگر وہ اب بھی سجدے میں گری اپنے رب کی بارگاہ میں فریاد کر رہی تھی. اسنے اچھائی سیکھی تھی، اسنے نیکیاں کرنا سیکھیں تھیں مگر وہ سب کچھ صرف سیکھ کر رہ گئی. عمل میں وہ ہی چیز آئی جو عالیہ نے اس سے کروائی. بےشک ضحی نے بھی اسکو بہت کچھ سیکھایا تھا. مگر اسنے ضحی کی باتوں کو کبھی اس قدر قریب سے نہیں جانا تھا. عالیہ کی بتائی باتوں پر عمل پیرا ہو کر وہ سب کچھ بھول گئی جو کچھ اسکو ضحی نے بتایا تھا. اس نے غلطی کی تھی. غلطی کرنے کے بعد ہی انسان کو اندازہ ہوتا ہے کہ و وہ کر چکا ہے وہ ایک غلطی تھی... یہ ہی انسان کی فطرت ہے. انسان کی زندگی میں ایک دوست کی بے انتہا قدر اور منزلت ہوتی ہے پر شرط یہ ہوتی ہے کہ جیسے وہ دوست سمجھ رہا ہے وہ دوست ہی ہو... دشمن نہیں. عالیہ کو دوست سمجھنا کشمالہ کی غلطی تھی. اور ضحی جس کی وہ اسکی زندگی میں قدر ںہ کر سکی، اسکی موت نے اسکو بتا دیا کہ وہ ہی اسکی سچی اور عزیز دوست تھی. اور اب کشمالہ کے لیے friendless کا لفظ استعمال کریں تو غلط نہیں ہوگا. وہ غلطی کر کہ پچھتا رہی تھی. مگر اب غلطی ہو چکی تھی... اب ہرجانا تو بھرنا ہی تھا نا.

**********

اپنی جینز کی دائیں جیب میں اپنے دائیں ہاتھ کی چار انگلیاں ڈالے وہ بایئں ہاتھ میں پکڑے فون کا کان سے لگائے کسی سے کچھ بات کرتی ہوئی لاؤنج میں آئی. "ہاں، ٹھیک ہے... پر تم جانتے ہو کہ اگر وہ پندرہ لاکھ نہ دے تو کیا کرنا ہے... جانتے ہو نا؟" اسنے دوسری طرف موجود شخص سے سوال کیا. "جی ماڈم! میں بلکل جانتا ہوں.. ویسے بھی یہ کام تو ہمیں کرنا ہی پڑے گا.. اسکی اتنی اوقات نہیں کہ وہ پندرہ لاکھ روپے دے. کل تک تو کیا وہ اگر ساری زندگی بھی جمع کرتی رہے تو بھی کبھی اکیلے اتنی رقم جمع نہیں کر سکے گی." کہ کر وہ بندہ خوب زور سے ہنسا. اسکے چہرے پر بھی ایک شیطانی مسکراہٹ رقص کر رہی تھی. "ہاں ٹھیک کہا تم نے راحم! چلو اسکو ایک دو بار اور دھمکاؤ اور پھر ویڈیو اپلوڈ کر دینا. پتا چلے اسکو بھی مجھ سے ٹکر لینے کا انجام کیا ہوتا ہے.. تھپڑ مارا تھا نا مجھے بغیر یہ جانے کہ میں کون ہوں! اب جو قسمت کا تھپڑ اسے پڑنے والا ہے نا.... ہاہاہا!" اسنے کہا اورایک زور دار قہقہا فضا میں بلند ہوا. اسنے کال کاٹی، موبائل کو سائیڈ میں پھینکا اور لان کی جانب کا رخ کیا. اسنے اپنے قدم لان کی جانب بڑھائے مگر بیچ میں ماہ نور آکھڑی ہوئیں. "رک جاؤ!" انہوں نے ذرا سختی سے کہا. "کیا ہے مام آپکو!" اسنے بھی اپنے لہجے کی تیزی دکھائی. "میں تمہاری ماں ہوں.. بتاؤ مجھے کیا کر رہی ہو اب تم... کس کے پیچھے ہو؟... کشمالہ؟" انہوں نے ذرا روک کر کشمالہ کا نام لیا. آنکھیں سکیڑ کر انہوں نے اسکو شک کی نگاہ سے دیکھا. "مام آپکو ہزار بار کہا ہے میں نے کہ میرے بزنس کے معملات میں مت بولا کریں! پر آپکو سمجھ ہی نہیں آتی! آپکے فضول سوالات کی وجہ سے ہر وقت میرا بی-پی ہائی رہتا ہے!" وہ بہت بدتمیزی سے بولی تھی. "تمہیں شرم تو نہیں آتی نا! تمھارے باپ نے بھی یہی کام کیا تھا. بڑا عظیم کام ہے نا جو تم بھی یہی سب کرنے لگی ہو!" انہوں نے اسکو گھورتے ہوئے کہا. "مام پلیز! مجھے اذیت ہوتی ہے جب کوئی مجھے تکلیف پوھنچاتا ہے یہ پونچنے کی کوشش کرتا ہے." اسنے بھی ماں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر جواب دیا. "تو اس لیے تم ان سے اتنے بارے بدلے لیتی ہو کہ انکو اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑے. خدا کا خوف کرو!" وہ کسی شیرنی کی طرح دھاڑیں تھیں. "مام یہ خدا کا خوف نا آپ ہی کریں... نہ اس حال میں خوش ہیں اور نہ اس حال میں تھیں.. جب انکے پاس کھانے تک کو کچھ نہیں تھا. کتنا پریشان کرتیں تھیں آپ مرے باپ کو. اور اب جب انکے پاس سب کچھ ہے... گھر، گاڑی، نوکر چاکر.. بینک بیلنس تب بھی انکو سکون نہیں ہے!" وہ بھی جواب میں اتنی ہی قوت سے چیخی تھی جتنی کہ ماہ نور. لڑائی کی آواز سن کر باہر موجود گارڈ اندر دوڑے چلے آئے. "بیگم صاحبہ کیا سب ٹھیک ہے؟" گارڈ نے کہا. اپنی بیٹی کو اس تدر بدتمیزی کرتا دیکھ انہوں نے ایک زناٹے دار تھپڑ دے مارا. گارڈ ایک دم الرٹ ہوکر آگے بڑھا مگر اسکا اشارہ دیکھ کر رک گیا. اسنے اپنی زہریلی نظریں ماں پر گاڑیں رکھیں. ہاتھ بلند کر کے گارڈ کو رکنے کا اشارہ کیا. "تم جاؤ یہاں سے! یہ میرا اور میری مام کا معاملہ ہے!" گارڈ حکم ملتے ہی باہر نکل گیا. "خدا کا شکر ادا کریں کہ آپ میری مام ہیں. ورنہ کسی کی اتنی ہمت نہیں کہ "عالیہ بٹ" پر ہاتھ اٹھائے اور اگر کسی سے یہ غلطی سر زد ہو جاتی ہے تو اسکا کیا انجام ہوتا ہے آپ اس سے اچھی طرح واقف ہیں." اسنے بےپناہ بدتمیزی سے عالیہ بٹ پر زور دے کر کہا اور وہاں سے چلی گئی.

**********

کمرے میں آکر اسنے زور سے دروازہ بند کیا. اور بیڈ پر آبیٹھی. اسکا خون کھول رہا تھا. اب کسی چیز پر تو غصہ اترنا ہی تھا. اسنے اپنا موبائل اٹھایا اور سامنے موجود دیوار پر دے مارا. "اف! کہاں پھنس گئی ہوں میں. اس کشمالہ کو تو چھوڑوں گیں نہیں میں." اسنے زیرلب کہا. اسکے دماغ میں وہ منظر کسی فلم کی طرح چلنے لگا جس لمحے کشمالہ نے اسکو تھپڑ مارا تھا. وہ ایک دم فلیش بیک میں چلی گئی. "کیا مصیبت ہے تمہیں! ہر وقت کیوں ضحی کے پیچھے پڑی رہتی ہو!" عالیہ نے ایک بار پھر سے کشمالہ سے ضحی کے بارے میں کوئی الٹی سیدھی بات کی تھی جس کی وجہ سے کشمالہ کو غصہ آگیا تھا. وہ کشمالہ کے ٹیبلو کرنے سے کچھ دنوں پہلے کی بات تھی. "میری مرضی... میری سمجھ میں تم پاگل ہو.. عجیب! تم کیوں ہر وقت اس مریضہ کی دیگ بھال کرنے چل پڑتی ہو!" عالیہ باآواز بلند چیخی تھی. "واٹ!؟" کشمالہ صرف اتنا ہی کہ پائی. اسکا غصہ ساتویں آسمان کو چھو رہا تھا. "ہاں ہے وہ ایک بلڈ کینسر کی مریضہ... یہ وہ ضحی نہیں ہے جس سے ہم نے دوستی کی تھی!" "شٹ آپ! جسٹ شٹ آپ!" کہ کر اسنے ایک زور ڈر تھپڑ عالیہ کے چہرے پر جڑ دیا. "وقت بدلتا ہے تو اوقات بدلتی دیکھی ہے میں نے... مگر وقت بدلتا ہے تو دوست بدل جائیں.. یہ پہلی بار سنا ہے میں نے!" حال میں موجود تمام طلباو طالبات پر سکتہ چاہ گیا. کشمالہ بھی خوب زور سے چیخی اور وہاں سے نکل گئی. عالیہ وہاں کھڑی صرف اپنی مٹھیاں بہنچتی رہ گئی. "کیا سمجھتیں تھیں تم کشمالہ کہ تم عالیہ بٹ کو مزے سے تھپڑ مڑ کر اپنا غصّہ نکل لو گی... بیٹا جی... میں بھی عالیہ بٹ ہوں. کسی پر اپنا بدلہ چھوڑتی نہیں..." اسنے خیالوں میں کشمالہ سے کہا. "اس وقت تو میں ٹھنڈی پڑ گئی تھی نا.. تم سے اپنا بدلہ جو لینا تھا." اسنے مزید کہا. "ایک بار ذرا کشمالہ کو دھماکایا جائے." اسنے سوچا اور دور زمین پر پڑے اپنے موبائل کو دیکھا. پھر بیڈ سے اتری اور موبائل کو اٹھایا. اسکا موبائل گھر کی ہر چیز کی طرح بہت مہنگا اور قیمتی تھا. اس لیے اسکے اتنے زور سے پہکنے پر بھی اسکو کوئی نقصان نہیں ہوا. اسنے کشمالہ کے نمبر پر ایک ٹیکسٹ میسج ڈالا. کیونکہ اسنے سم بدلی جوئے تھیتو کشمالہ کے لیے یہ ایک ان نوں نمبر تھا. "ہاں... پیسوں کا انتظام ہو گیا... یہ کر دوں آپکی ویڈیو سوشل میڈیا پر اپلوڈ.... ہم؟؟؟" میسج بھیج کر وہ مسکرائی. وہ ایک شیطانی مسکراہٹ تھی.

**********

ٹرن! کی آواز پر اسنے پلٹ کر دیکھا.وہ ابھی ابھی جائے نماز سمیٹ کر بیڈ بیٹھی تھی. وہ آواز اسکے موبائل سے آئی تھی. موبائل اٹھایا تو اس پر اسی نمبر سے میسج آیا تھا. اسنے ڈرتے ڈرتے اس میسج پر کلک کیا تاکہ مکمل طور پر اسکو دیکھ سکے. اسنے زیر لب وہ میسج پڑھا. "یا الله... میں کیا کروں.. کس سے مدد مانگوں؟؟؟" اسنے پریشانی میں خود سے سوال کیا. "یا اللہ میری مدد کر!" اسنے ایک بار پھر اپنے خدا کو یاد کیا. اس بات میں کوئی شک نہیں کہ مشکل وقت میں ہی انسان الله کو یاد کرتا ہے. اگر انسان کی زندگی میں مشکلات نا آئیں تو انسان غلطی سے بھی اپنے رب کو یاد نہ کرے. "اگر میں ان لوگوں کو پیسے دے بھی دوں تو کیسے یقین کرلوں کہ وہ لوگ میری ویڈیو ہر جگہ سے مکمل طور پر ڈیلیٹ کر دیں گے... وہ لوگ... کون لوگ؟؟؟ میں تو یہ تک نہیں جانتی کہ یہ لوگ کون ہیں.. اور میرے ہی پیچھے کیوں پر گئے ہیں؟" اسکے سوال کو اسکے رب نے سن لیا تھا جبھی جواب کے طور پر اسکو وہ کال موصول ہوئی جس نے اسکو ہلا کر رکھ دیا. "ہیلو مائی ڈیر کشمالہ... کیسی ہو میری جان..." عالیہ نے اپنی آواز میں مٹھاس گھول کر اس سے سوال کیا. "کک.. کو.. کون؟؟؟" اسنے اٹکتے ہوئے پوچھا. وہ اس آواز کو اچھی طرح پہچانتی تھی. "ارے مجھے بھول گئیں؟ ایسا ظلم تو نہ کرو... میں.. عالیہ...عالیہ بٹ! نرمی سے کہتے کہتے وہ اک دم سختی سے بولی. "عع.. عع.. عال.. عالیہ ؟!؟!" اسکے لیے یقین کرنا مشکل نہیں نا ممکن ہوتا جا رہا تھا.

جاری ہے....







 
 
 

Commentaires


Post: Blog2_Post

Subscribe Form

Thanks for submitting!

©2021 by writer armeen. Proudly created with Wix.com

bottom of page